• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’اگر آپ نے میرے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہاتھ ملایا تو میرے اوپر طلاق ہے‘‘ کہنے کا حکم:

استفتاء

مفتی صاحب اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ ’’اگر آپ نے میرے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہاتھ ملایا تو میرے اوپر طلاق ہے‘‘ تو طلاق کا کیا حکم ہے؟  ابھی تک ہاتھ نہیں ملایا۔لیکن اگر کبھی ملا لیا تو کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب شوہر نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ ’’اگر آپ نے میرے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہاتھ ملایا تو میرے اوپر طلاق ہے‘‘تو بیوی کے شوہر کے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہاتھ ملانے کی شرط پر طلاق معلق ہوگئی ۔ لیکن چونکہ ابھی تک شرط نہیں پائی گئی یعنی بیوی نے شوہر کے بھائیوں میں سے کسی سے بھی ہاتھ نہیں ملایا لہٰذا شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے اب تک کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

باقی رہا آئندہ کا مسئلہ تو اگر شرط پائی گئی تو ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی جس کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر عدت کے اندر رجوع کرلے گا تو رجوع درست ہوجائے گا اور نکاح باقی رہے گا اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت ختم ہونے پر نکاح ختم ہوجائے گا جس کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔اور ایک مرتبہ شرط پائے جانے کے بعد تعلیق ختم ہوجائے گی اور پھر دوبارہ ہاتھ ملانے سے مزید طلاق واقع نہ ہوگی۔

نوٹ: شرط پائے جانے کے بعد رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔ نیز بیوی کے لیے اپنے شوہر کے بھائیوں کے ساتھ ویسے بھی ہاتھ ملانا جائز نہیں خواہ طلاق کی شرط ہو یا نہ ہو، لہٰذا بیوی کو بہر صورت شوہر کے بھائیوں سے ہاتھ ملانے سے بچنا چاہیے۔

الدر المختار مع رد المحتار (4/450) میں ہے:

ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف

قوله: (فيقع بلا نية للعرف) فيكون صريحا لا كناية بدليل عدمِ اشتراط النية

ہدایہ (385/2 ،باب الایمان فی الطلاق) میں ہے:

و اذا اضافه الى شرط وقع عقيب الشرط مثل ان يقول لامراته ان دخلت الدار فانت طالق

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

الدر المختار (4/596) میں ہے:

( تنحل ) أي تبطل ( اليمين ) ببطلان التعليق ( إذا وجد الشرط مرة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved