• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لفظ آزاد سے طلاق کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لفظ آزاد  کس صورت میں طلاق کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس لفظ سے نیت سے طلاق واقع ہوتی ہے  یا نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟

تنقیح :

معلوماتی سوال ہے یا کوئی صورت درپیش ہے؟ اگر کوئی صورت درپیش ہے تو اس کی تفصیلات لکھ کر بھیجیں۔

جواب تنقیح :

معلومات کے لئے پوچھا ہے کیونکہ میں نے سنا ہے ایسا کہنے سے طلاق ہو جاتی ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

لفظ آزاد ہر حال میں طلاق کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ بعض صورتوں میں یہ طلاق کے لیے صریح ہے جس کا حکم یہ ہے کہ نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، بعض صورتوں میں یہ لفظ طلاق کے لیے کنایہ ہے جس کا حکم یہ ہے کہ نیت سے یا دلالت حال ( لڑائی جھگڑے میں یا بیوی کے مطالبہ طلاق کے جواب میں بولنے) سے طلاق واقع ہوتی ہے، اور بعض صورتوں میں یہ لفظ طلاق کے لیے نہ صریح ہے نہ کنایہ، جس کا حکم یہ ہے کہ طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو طلاق واقع نہیں ہوتی۔

1۔ یہ لفظ اس وقت طلاق کے لیے صریح ہوتا ہے جب ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہو مثلاً یوں کہا جائے کہ ’’میری بیوی میرے نکاح سے آزاد ہے ‘‘یا ’’میں نے اس کو اپنے نکاح سے آزاد کیا ‘‘یا ’’میں نے اس کو  آزاد کردیا ‘‘یعنی ماضی کا صیغہ استعمال کرے۔

2۔ یہ لفظ کنایات طلاق میں اس وقت داخل ہے جبکہ ارادہ طلاق کے خلاف کا قرینہ کلام میں نہ ہو مثلا یوں کہا جائے کہ ’’میری بیوی آزاد ہے‘‘ یا ’’تو آزاد ہے‘‘ یا ’’وہ آزاد ہے‘‘ اور ’’وہ ہر طرح مجھ سے آزاد ہے ‘‘اور ’’تو پوری طرح آزاد ہے‘‘ ۔

3۔ اگر کلام میں ارادہ طلاق نہ ہونے کا قرینہ قائم ہوجائے تو پھر یہ نہ صریح ہے نہ کنایہ ، مثلا یوں کہا جائے کہ ’’تو آزاد ہے جو چاہے کھا پی‘‘ اور ’’میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر‘‘ اور ’’وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آئے‘‘ ۔

فتاوی شامی(4/519) میں ہے:

فإذا قال ” رهاكردم ” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كان

درمختار (4/521) میں ہے:

ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد ففى حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة.

امداد الاحکام (2/467) میں ہے:

سوال: ۔۔۔۔ میں نے والدہ کو جواب دیا کہ میری طرف سے تم بھی آزاد ہو اور وہ بھی آزاد ہے جب چاہو آؤ۔۔۔۔ اس وقت یہ الفاظ اس نیت سے کہے گئے تھے کہ گویا تم دونوں کو میری کچھ فکر نہیں طلاق کی نیت سے یہ الفاظ نہیں کہے گئے ۔۔۔۔

الجواب:صورت مسؤلہ میں متکلم کا یہ قول کہ میری طرف سے تم بھی آزاد ہو اور وہ بھی آزاد ہے جب چاہے آؤ نہ کنایات طلاق سے ہے نہ صریح سے اس لئے کہ اس سے کسی قسم کی طلاق پڑنے کا احتمال نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ  کنایہ وہ ہے جس میں احتمال ارادہ رفع قید نکاح بھی ہو اور اس کے غیر کا احتمال بھی ہو اور لفظ آزاد ہر حالت میں اور ہر استعمال میں کنایہ طلاق نہیں بلکہ یہ کنایات طلاق میں اس وقت داخل ہے جبکہ خلاف ارادہ طلاق کا قرینہ کلام میں نہ ہو مثلا یوں کہا جائے کہ میری بیوی آزاد ہے یا تو آزاد ہے یا وہ آزاد ہے اور وہ ہر طرح مجھ سے آزاد ہے اور تو پوری طرح آزاد ہے ان استعمالات میں بے شک یہ کنایات طلاق کی قبیل سے ہے اور اگر ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہو تو پھر یہ لفظ صریح ہو جاتا ہے مثلاً یوں کہا جائے کہ میری بیوی میرے نکاح سے آزاد ہے یا میں نے اس کو اپنے نکاح سے آزاد کیا اور میں نے اس کو اپنے سے آزاد کردیا اور اگر کلام میں عدم ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہوجائے تو پھر یہ نہ صریح طلاق سے ہے نہ کنایات سے مثلا یوں کہا جائے کہ تو آزاد ہے جو چاہے کھا پی اور میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر اور وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آئے ان استعمالات میں ہرگز کوئی شخص محض مادہ آزاد کی وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا بلکہ اباحت افعال و تخییر وغیرہ پر محمول کرے گا بشرطیکہ اس کو محاورات لسان پر کافی اطلاع ہو اور ایک لفظ کا صریح طلاق اور کنایہ طلاق ہونا اور گا ہے دونوں سے خالی ہونا اہل علم پر مخفی نہیں۔۔۔۔۔۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved