• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک طلاق سمجھ کر تین طلاق والے طلاقنامے پر دستخط کردینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  13-7-2020 کو ہماری میاں بیوی کی آپس میں لڑائی ہوئی، میری اہلیہ نے وکیل کو بلایا اور آپس میں ایک تحریر (بیانِ حلفی) لکھوائی جس کی کاپی لف ہے۔پھر اسی وقت ہم نے وکیل کو کہا کہ طلاق نامہ بھی لکھو تو وکیل نے مجھ سے پوچھا کہ آپ طلاق دیتے ہو؟ میں نے کہا ہاں، دیتا ہوں، تو انہوں نے طلاق نامہ لکھ دیا اور میرے اس پر دستخط کروائے اور انگوٹھا بھی لگایا جس کی کاپی ساتھ لف ہے۔اور یہ پیپر بیوی کے گھر بھجوا بھی دیا تھا۔

بات یہ ہے کہ وکیل نے طلاقنامے میں تین طلاق لکھ دی تھیں۔ میں بالکل ان پڑھ ہوں نہ میں نے اس طلاقنامے کو پڑھا اور نہ مجھے علم تھا کہ اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں۔ میرے ذہن میں صرف ایک طلاق کا تھا کہ ایک طلاق واقع ہوگی اور یہ میرا حلفی بیان ہے۔ آپ رہنمائی کریں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

نوٹ: بیوی بھی شوہر کے اس بیان کی تصدیق کرتی ہے۔

سائل: اعجاز علی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر واقعی بات ایسے ہے کہ شوہر نے نہ تین طلاقیں لکھنے کا کہا اور نہ طلاق نامہ پڑھا اور نہ شوہر کو پڑھ کر سنایا گیا تو  مذکورہ صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہےاور عدت کے بعد میاں بیوی کو اکٹھے رہنے کے لئے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ: رجوع یا دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو آئندہ کیلیے صرف دو طلاقوں  کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب وکیل نے شوہر سے پوچھا کہ کیا آپ طلاق دیتے ہو؟ اس کے جواب میں شوہر کا یہ کہنا کہ ’’ہاں دیتا ہوں‘‘ طلاق دینا نہیں ہے بلکہ وکیل کو طلاقنامہ لکھنے کی اجازت دینا ہے لہٰذا محض اس کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور مذکورہ صورت میں وکیل نے نہ تین طلاق کا پوچھا اور نہ ہی شوہر نے تین طلاق کا جواب دیا بلکہ وکیل نے بغیر عدد کے صرف طلاق کا پوچھا اور شوہر نے اسی کا جواب دیا، لہٰذا شوہر کی طرف سے صرف ایک طلاق کی اجازت ہوئی لہٰذا جب وکیل نے از خود تین طلاقیں لکھ دیں اور شوہر کو پڑھائے یا سنائے بغیر اس سے دستخط لیے اور یہ طلاقنامہ بیوی کو بھیج دیا ،تو اس طلاقنامے سے شوہر کے حق میں صرف ایک طلاق واقع ہوئی۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه…………. وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا

امداد الفتاویٰ جدید مطول (5/183) میں ہے:

’’سوال: ایک شخص نے دوسرے سے کہا ایک طلاق لکھدو اس نے بجائے صریح کے کنایہ لکھدیا، آمر نے بغیر پڑھے یا پڑھائے دستخط کردیئے تو کیا حکم ہے اور دستخط کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟۔۔۔۔۔۔الخ

جواب: اگر مضمون کی اطلاع پر دستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں، قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved