• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدد طلاق میں میاں بیوی کا اختلاف

استفتاء

تقریباً چار یا ساڑھے چار بجے میں نے افیون کھائی جس کے 15، 20 منٹ بعد الٹی آنا شروع ہوئی اور کافی الٹیاں آئیں جس کے بعد میں خود ڈسپنسری گیا اور عصر کے وقت ڈرپ لگوائی اور دوائی لی۔ گھر آکر دوائی کھائی اور چھت پر چلا گیا، تھوڑی دیر یعنی تقریباً 10، 15 منٹ بعد بیگم اور بیٹی اوپر آگئی اور چارپائی پر لیٹنے پر جھگڑا ہوا، کافی بحث وتکرار کے بعد میں نے طلاق بول دیا۔ 2 بار میں نے بیوی سے کہا ’’جا، طلاق طلاق‘‘ اس کے بعد بیٹی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور میں نے بیٹی کا ہاتھ ہٹا کر بیگم کو گالی دی اور کہا کہ جاؤ۔ اس وقت کوئی خلافِ عادت کام بھی نہیں کیا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ یہ الفاظ میرے منہ سے کیسے نکلے؟ نہ جانے دوائیوں کا اثر تھا یا کیا تھا؟اس کے بعد بیوی نیچے چلی گئی۔ اس کے بعد مسجد کے حاجی صاحب آئے، انہوں نے کہا کیا ہوا؟ میں نے کہا قصہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد مسجد میں آگئے مسجد کے قاری صاحب سے بات ہوئی، قاری صاحب نے پوچھا کہ کیا ہوا طلاق دے دی؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے پوچھا ایک یا دو یا تین؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد قاری صاحب بات کرتے رہے اور بار بار پوچھا کہ ایک یا دو بار دی ہے تو گنجائش ہے اگر تین دی ہیں تو قصہ ختم۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا، میں چپ بیٹھا رہا۔

اس کے بعد قاری صاحب اپنے گھر چلے گئے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد بات ہوئی تو قاری صاحب نے پھر پوچھا کہ کتنی طلاق دی؟ میں نے کہا دو طلاق دی ہیں، قسم اٹھوا لو، میں نے دو طلاق ہی دی ہیں، جہاں بھی لے جاؤ قسم اٹھا لیتا ہوں، دو ہی دی ہیں۔

بیوی کا بیان:

چار بجے کے قریب کوئی نشہ کیا ہے جو پہلے بھی کرتے تھے، افیون کا۔ پھر منہ بھر بھر کر 15، 20 منٹ الٹی کرتے رہے، پھر ڈسپنسری گئے، وہاں سے واپس آکر لیٹ گئے، کھچڑی بھی کھائی، پھر دوائی بھی کھائی، خاموش رہے بہت دیر تک، بستر بچھا کر دیا، چار پائی بدلنے پر بحث وتکرار ہوئی، گھر چھوڑنے پر بات آگئی، بہت زیادہ غصہ میں آگئے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، آپ نے جانا ہے تو چلے جاؤ، اس پر عظمت نے کہا آپ تو پہلے ہی چاہتی ہو۔ ٹھیک ہے میں ہی چلا جاتا ہوں۔ پھر تین بار ’’طلاق دی‘‘ کہہ دیا۔

میں نے جو سنا تین بار تھا، میں اس پر قسم تو نہیں دے سکتی لیکن میرا زیادہ تر خیال یہی ہے کہ تین مرتبہ کہا ہے۔ پھر میں نیچے بھاگ گئی، اس وقت عظمت، میں اور بچی تھی بس، کوئی اور گواہ نہیں تھا لیکن عظمت کہتے ہیں دو بار کہا پھر گالی دی، تیسری بار بچی نے منہ بند کر دیا تھا۔ آگے جو اللہ کا حکم۔ (اہلیہ عظمت)

مسجد کے امام صاحب کا بیان:

محترم مفتی صاحب السلام علیکم!

بروز پیر رات دس بجے کے قریب عظمت کو حاجی صاحب مسجد لے کر آئے اور حاجی صاحب نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے اس پوچھا کہ ایک دی ہے یا دو دی ہیں یا تین دی ہیں؟ تو اس نے سر ہلا دیا لیکن تعداد نہیں بتائی۔ میں نے کہا تو نے تو کاغذ کالا کرکے ہوا میں اڑا دیا۔ اس کے بعد یہ کہنے لگا میرا دماغ کام نہیں کررہا، اگلی صبح فجر کے بعد یہ کہنے لگا کہ میں نے دو بار کہا تھا۔ (محمد افضل)

وضاحت مطلوب ہے کہ:

جب شوہر نے طلاق کے الفاظ کہے تو اس سے پہلے اس نے کون سی دوائیاں کھائی تھیں؟

جوابِ وضاحت:

– Tablet Cimet

– Susp (suspension) mucain

– tab Gravinate

– Tab panadol

– tab Flagyl

– tab lomotil

– tab Entox

– tab Diazepam

دوائیوں کی پرچی ساتھ لف ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے بیوی کے لئے شوہر کے ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر بیوی خود سن لے یا اسے معتبر ذریعہ سے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہو تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں بھی بیوی کو شوہر کے تین طلاق دینے کا غالب گمان ہے لہٰذا وہ اپنے حق میں تین طلاق شمار کرنے کی پابند ہے۔

اور شوہر کو چونکہ دو طلاق دینے کا یقین ہے اس لیے اس کے حق میں دو طلاقیں واقع ہوئی ہیں۔ شوہر نے جو دوائیاں استعمال کی ہیں ان کے بارے میں مختلف ڈاکٹروں سے پوچھنے کے بعد یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ان میں ایسی کوئی دوائی نہیں جس کے کھانے سے انسان کی ایسی حالت ہوجائے کہ اسے کچھ ہوش ہی نہ رہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ کوئی ایسا خلافِ عادت کام سرزد ہوا کہ جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ شوہر اپنا ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا۔ نیز مذکورہ صورت میں شوہر کا کہنا کہ میں نے دو طلاق ہی دی ہیں، جہاں بھی لے جاؤ قسم اٹھا لیتا ہوں، اس بھی معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کو معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔لہٰذا شوہر کی اس بات کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ یہ الفاظ میرے منہ سے کیسے نکلے۔

رد المحتار (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه

در مختار مع رد المحتار(439/4) میں ہے:

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved