• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے میں طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے شراب کے نشے کی حالت میں تین دفعہ طلاق کا لفظ اپنی بیوی کے سامنے استعمال کیا، وہ آدمی اسی وقت بعد میں کہتاہے کہ میں نے طلاق کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں

عورت کا حلفیہ بیان

میں قسم کھا کے کہتی ہو ں،میرا شوہر رات کے بارہ بجے شراب کے نشے کی حالت میں ایک غیر لڑکی کے ہمراہ گھر آیا، میری اورمیرےشوہرکی اس بات پر بہت بد کلامی و بد زبانی ہوئی، اسی حالت میں میرے شوہر نے تین لفظ بولے ’’طلاق، طلاق، طلاق، اورکہاکہ’’ ہمارا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی بچیوں سے کوئی تعلق ہے‘‘۔اس نے پھر کہا کہ اگر’’ تمہیں آواز نہیں آئی تو میں اونچی آواز میں کہوں؟‘‘میں نے کہا کہ میرا تمہارا اب کوئی تعلق، واسطہ نہیں،اور پھر وہ اپنی بات سے مکر گیا اور کہا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا، میں نے یہ الفاظ بولے ہی نہیں،میں نے طلاق نہیں دی تھی، آج اس بات کو ایک مہینہ ہو گیا ہے اور وہ یہی کہہ رہا ہے. برائے مہربانی وضاحت فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر اس قدر نشے میں تھا کہ اسے واقعتاًپتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا نہیں یا اس کی گفتگو میں ہذیان (اول فول بکنا)غالب تھا تو بعض اہل علم کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوئی۔

موجودہ دور میں ان بعض اہل علم کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

اور اگر نشے کے باوجود اسے پتہ چل رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا نہیں؟ اور اس کی گفتگو میں ہذیان یعنی اول فول بکنا بھی غالب نہ تھا تو مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں ہو جائیں گی جن کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی اوررجوع یا صلح کی گنجائش نہ رہے گی۔

وفي مسئلة الطلاق خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيدبن المسيب وعطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سيرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في روايةوقال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد بن سلمة من مشائخنا. (فتح القدير: 3/ 482)

و يصح طلاق السكران و لو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجراً، به يفتی تصحيح القدوري. (تنوير الأبصار و رد المحتار: 3/ 240)

و في التاترخانية طلاق السكران واقع و هو مذهب أصحابنا(ردالمحتار:3/ 241)

مذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتی لنفسه لكون المرجوح صار منسوخاً و قيده البيري بالعامي أي الذي لا  رأي له يعرف به معنی النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عامياً فلم أره، لكن مقتضی تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك، قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنی النصوص و الأخبار و هو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها و إن كان مخالفاً لمذهبه، و قد ذكر في حيض البحر أقوالاً ضعيفة في بحث ألوان الدماءثم قال:وفي المعراج عن فخرالأئمةلو أفتی مفت بشئ من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلباً للتيسيركان حسناً(رد المحتار : 1/ 74)

في الشامية:(3/239)ان المراد ان يکون غالب کلامه هذيان فلونصفه مستقيمافليس بسکرفيکون حکمه حکم الصحاة في اقراره بالحدود وغيرذلک

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved