• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جاری فاروقیہ کے طلاق ثلاثہ پرجاری فتوے پرتبصرہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کے آپ کے پاس سے ایک عدد فتوی لیا تھا (استفتاء نمبر:70 53،نوعیت:دستی،تاریخ 4-5-2019  جس کی کاپی ساتھ لف ہےدوسرا فتوی جامع مسجد قادسیہ چوبرجی سے لیا ہے۔ ہمارا تعلق دیوبند سے ہے لیکن جو بچی ہمارے گھر آئی ہے وہ اہل حدیث ہے ،ان کے حساب سے طلاق نہیں ہوئی،لہذا آپ سے التماس ہے کہ اس کا درست حل آسان طریقے سے بتایا جائے، دونوں کی کاپیاں ساتھ لف ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پہلی بات تو یہ ہے کہ لڑکا دیوبندی ہے اگر لڑکی کے نزدیک تین طلاقیں نہ بھی ہوئی ہوں تو لڑکے کے نزدیک تین ہوگئی ہیں۔اس لیے لڑکی کامسلک الگ ہونے سے مسئلے کی نوعیت میں فرق نہیں پڑے گااوردوسری بات یہ ہے کہ جامع مسجد القادسیہ والوں کا فتوی ہماری تحقیق میں درست نہیں، جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. مسلم شریف کی جس حدیث کی بنیاد پر انہوں نے مذکورہ فتویٰ دیا ہے، اس میں ایک مجلس کا جملہ حدیث کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں بنتا، لہذا اس حدیث سے ایک مجلس کی اکٹھی تین طلاقوں کے ایک ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں.
  2. اسی حدیث کے آخر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فیصلہ تین طلاقوں کا مذکور ہےجس کا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے انکار نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ تین طلاقوں کے تین ہونے کا فتوی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا متفقہ فتوی ہے۔

3.اس حدیث کے راوی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافتوی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں تین طلاقوں کا ہے.

4. قرآن پاک میں ’’الطلاق  مر تان‘‘میں دو مرتبہ کی طلاق( جو کہ ایک مجلس میں بھی ہوسکتی ہے) کو دو شمار کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی دو یا تین مرتبہ دی گئی طلاقیں دویاتین ہی شمار ہوں گی نہ کہ ایک۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved