• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حالیہ دنوں میں ذاتی وجوہات کی بناء پر میرے والد صاحب اور والدہ میں جھگڑا ہوا ۔ہمارے کچھ گھریلو معاملات تقریبا 5 سال سے کچھ کشمکش کا شکار ہیں ۔ یہ معاملات میرے والد صاحب کی جاب(job) سے رٹائرمنٹ کے بعد شدت اختیار کر گئے ۔ کاروبار میں نقصان ہوا جس کو میرے والد صاحب نے اپنے اوپر حاوی کر لیا اور ہر وقت سوچ اور ٹینشن میں رہنے کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہو گئے۔اور ذرا ذرا سی بات پر ہم اولاد سے اور والدہ سے جھگڑا شروع کر دیتے تھے ۔  شروع میں ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ والد صاحب ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں لیکن اب سے دو ماہ پہلے اسی طرح کی کچھ لڑائی ہوئی جس میں میرے والد نے غصے میں آکرتوڑ پھوڑ ، مار پیٹ شروع کر دی ۔ بات اس حد تک بڑھ گئی کہ معاملات طلاق تک آگئے ۔ میرے والد نے میری والدہ کو طلاق کا کہا کہ "جا میں نے تجھے طلاق دی” کچھ دیر بعد پھر والد صاحب نے یہ الفاظ دہرائے ۔بہر حال کچھ دنوں بعد جب والد صاحب اور گھر کا ماحول بہتر ہوا تو میرے والد نے ٹاؤن ہال میں یونین کونسل اور نیلے گنبد  جامعہ اشرفیہ گئے انہیں معاملہ سے آگاہ کیا ۔ لہذا انہوں نے دو طلاق کا کہا  یعنی طلاق بائن۔پھر دوبارہ  دونوں کا تجدید نکاح ہوا۔ میرے والد کا ڈیپریشن کا مرض شدت اختیار کر گیا تو جب میں نے ہمارے فیملی ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے  اس مرض کے نقصانات  اور مریض کےاحوال بتائے ۔ کہ اس صورت حال میں مریض کس طرح مار پیٹ توڑ پھوڑ کرتا ہےاور سب کو اپنا دشمن سمجھتا ہےحتی کہ مرنےمارنے پر اتر آتا ہے ۔ بالکل اسی طرح کی صورت حال چاند رات سے دوبارہ شروع ہو ئی ۔ کہ تمام معاملات بالکل ٹھیک چل رہے تھے کہ اچانک پاپا ہم سے غصہ میں بات کرتے اور نا کھانا کھاتے ۔بس سب سے جھگڑا کرتے ۔عید کے ایک ہفتے کے بعد میری والدہ اور بہن بھائی اوپر والے فلور (منزل) پر تھے کہ اچانک والد صاحب اوپر آئے اور آتے ہی چھوٹے بھائی کو بہت برے طریقے سے مارنا شروع کر دیا ۔امی بھائی کو بچانے کے لئے آگے آگئی تو انہیں بھی مارنا شروع کر دیا ۔ میری بڑی بہنیں جو شادی شدہ ہیں وہ گھر موجود تھیں انہوں نے امی کو بچانے کی کوشش کی تو انہیں بھی مارنا شروع کر دیا حتی کہ بہنوئی کو بھی مارا  اور انہیں گالی گلوچ  بھی دی۔چھوٹے بھائی کو چھت سے نیچے پھینکنے کی کوشش کی۔ اپنے آپ کو بھی مارا۔اپناسر دیواروں میں مارا ۔اینٹیں اٹھا اٹھا کر پھینکیں ۔ اوپر والے پورشن کی لائٹ بھی کاٹ دی اور خود ہی پولیس کو فون کر کے بلایا اور ان سے کہا کہ میرے بیوی بچوں نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے۔

جب پولیس والے گھر آئے تو پولیس کو کہا کہ میں نے تو اپنی بیوی کو دو سال پہلے ہی طلاق دیدی تھی یہ تو میرے ساتھ نا جائز رہ رہی ہےاس سے پہلے بھی اس طرح کے الفاظ والد صاحب نے بولے تھے۔

لیکن اب جب معاملہ ٹھنڈا ہوا تو جب میں نے اپنے  والد صاحب  سے پوچھنے کی کوشش کی کہ انہوں نے کیا الفاظ بولے طلاق کے بارے میں تو وہ کہ رہے ہیں کہ میں نے کچھ نہیں کہا کچھ نہیں بولا ۔جبکہ والدہ کہ رہی ہیں کہ انہوں نے مجھے کہا کہ "تو میرے لیے حرام ہے”۔

میرے والد صاحب ان تمام باتوں سے مکر رہے ہیں جو انہوں نے لڑائی کے دوران سب کو کہیں ۔ہمارے فیملی ڈاکٹر کے مطابق ڈیپریشن کے اس دوران مریض کیا کہ رہا ہے کب کہ رہا ہے کچھ زیادہ یاد نہیں رہتا۔ اچھے ہوتے ہیں تو بہت اچھے ہوتے ہیں ،برے ہوتے ہیں تو بہت برے ہوتے ہیں اور سب کے ساتھ برا برتاؤ کرتے ہیں ۔

ڈیپریشن کے مرض کے علاوہ انکا روحانی علاج بھی کروایا اس دوران پتہ چلا  کہ ان پر سحر جادو وغیرہ کا بھی اندیشہ ہے۔اور یہ بات مولانا اعجاز صاحب کے مدرسہ اقرأ سكول سنت نگر والے کے یہاں مولانا مدثر صاحب ہوتے ہیں انہوں نے بھی بتایا اور مولانا احسان اللہ صاحب  نے بھی بتایا ۔یہ تمام معاملات آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں مجھے امید ہے کہ اللہ کی ذات سے کہ آپ قرآن  و سنت کے مطابق ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔ لہذا ہمیں طلاق کے اہم مسئلہ سے آگاہ کر دیجئے کہ آیا طلاق ہوئی یا نہیں؟ جزاک اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر چہ بیوی  کے بیان کے  مطابق  اس نے خاوند کے منہ سے یہ الفاظ سنے ہیں  کہ "تو میرے لئے حرام ہے” مگر چونکہ خاوند ڈیپریشن کے مریض بھی ہیں اور غصہ بھی ایسا تھا کہ ان سے خلاف عادت اقوال و افعال بھی صادر ہو رہے تھے اور انہیں اپنی کہی ہوئی باتوں کا علم بھی نہیں تھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ۔اس لیے ایسی حالت میں بولے گئے الفاظ  سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

امداد الاحکام  ج 2 ص 559  میں ہے:

سوال:زید نے بعد میں یہ دعوی کیا کہ میں نے غصہ میں مغلوب العقل ہو کر طلاق دی تھی ۔ مغلوب العقل جس کی طلاق شرعا واقع نہیں ہوتی کسے کہتے ہیں اور طلاق دیکر کوئی شخص مغلوب العقل ہونے کا دعوی کرنے لگے تو اس دعوی کے قبول ہونے کی کیا شرائط ہیں ؟

جواب: مغلوب العقل جسکی طلاق واقع نہیں ہوتی وہ ہے کہ جس کی عقل غصہ یا خوف وغیرہ کی وجہ

سے جاتی رہی ہو۔ اور اس سے باتیں بہکی بہکی صادر ہونے لگیں اور مجنونوں جیسے افعال ظاہر ہو نے لگیں جیسا کہ بعض لوگ غصہ میں برتن توڑنے پھوڑنے اور دیوار وغیرہ میں سر مارنے لگتے ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص غصہ وغیرہ میں ایسا حواس باختہ ہو جائے کہ اس پر جنون کے آثار پائے  جانے لگیں وہ شرعا مدہوش ہےاور ایسے مغلوب العقل کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

و فی حاشية ابن عابدين:439/4

قلت وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه

 الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله

 الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله………………….فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved