• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مذاکرہ طلاق کے وقت بغیر نیت کے دی گئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

من مسمی میر افضل  غربی بلا کسی جبر و اکراہ کےحلفیہ بیان کرتا ہوں کہ مؤرخہ 2018-06-25 کو میرے بیٹے کے سسرال والے ہمارے گھر آئے اور مجھے اور میرے بیٹے کو ڈرانے دھمکانے لگے اور میرے بیٹے پر دباؤ ڈالا کہ وہ ماں باپ سے الگ گھر لے کر اپنی بیوی کو وہاں رکھے اسی گرما گرمی میں انہوں نے  میرےبیٹے کو مجبور کیا کہ وہ ہم سے الگ ہوجائے اسی کیفیت میں میری زوجہ محترمہ نے انتہائی غصہ کی حالت میں مجھ سے کہا کہ اگر میرا بیٹا گھر سے چلا گیا تو میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی مجھے طلاق دو انتہائی سخت گرماگرمی والے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لئے میں نے صرف لفظ طلاق بلند آواز میں کہا اس وقت نہ تو میں نے اپنی زوجہ کو کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور نہ ہی میں نے کوئی شرط رکھی کہ جس کی تکمیل پر طلاق واقع ہو بلکہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لئے صرف لفظ طلاق بلند آواز میں ادا کیا جس کو میرے سالے صاحبان نے میری زوجہ کی ساتھ منسوب کر کے اسے کہا کہ تمہیں طلاق ہوگئی ہے اور اسے زبردستی میرے گھر سے لے کر چلے گئے اور اس کو میرے دوسرے بیٹے کےگھر چھوڑ دیا اوپر بیان کردہ الفاظ میں نے سوچ سمجھ کر اور اپنی دانست کے مطابق حلفیہ طور پر درست بیان کیے ہیں  اور آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں کہ جب میں نے لفظ طلاق کی ادائیگی کی تھی تو اس وقت نہ تو میری نیت اپنی زوجہ کو طلاق دینے کی تھی اور نہ ہی میں نے اپنی زوجہ کے لیے یہ الفاظ ادا کیے بلکہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے اور سب کو خاموش کرنے کے لیے یہ الفاظ ادا کیے براہِ کرم مجھے میری زوجہ کے بابت رشتے میں رہنمائی فراہم کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے عدت کے اندر اندررجوع کر سکتے ہیں اور اگر رجوع کئے بغیر عدت گزر چکی ہے تو دوبارہ نکاح کرنا پڑےگا اور آئندہ شوہر کے پاس دوطلاقوں کا حق باقی ہے۔

تو جیہ:اگر چہ شوہر نے لفظوں میں طلاق کی نسبت اپنی بیوی کی طرف نہیں کی لیکن چونکہ سوال میں بیوی کی طرف سے طلاق کا مطالبہ موجود ہے اس لیئے یہ طلاق بیوی کو ہی سمجھی جائے گی۔

 

در المختار443/4میں ہے :

صريحه ما لم يستعمل الا فيه  كطلقتك و أنت طالق و مطلقة و يقع بها واحدة رجعية وإن نوي خلافها اولم ينو شيئاً

امدادالفتاوى(2/445)میں ہے:

از قواعدوجزئیات چناں می نماید کہ شرط وقوع طلاق مطلق اضافت ست نہ کہ اضافت صریحہ آرے تخقق مطلق اضافت محتاج ست بقرائن قویہ وقرائن ضعیفہ محتملہ درآں کافی نیست پس در جزئیاتیکہ حکم بعدم وقوع کردہ اندسیش نہ انست کہ در واضافت صریحہ نیست بلکہ سبب آن ست کہ درو قرینہ قویہ براضافت قائم نیست آن قرینہ بہ تتبع چند قسم ست اول صراحت اضافت وان ظاہراست كما في قوله اینکت دوم نیت كما في قوله عنيت امراتي واز عبارت خلاصہ وإن لم يقل شيئا لا يقع شبہ نہ کردہ شود کہ نیت بلا اضافت صریحہ کافی نیست زیرا کہ معنی لايقع اے لا يحكم بوقوع مالم يقل عنيت است چراکہ بدون اظہار نادی دیگراں را علم نیت چگونہ می تواں شد فاذا قال عنیت یقع لا لقولہ عنیت لانہ لیس موضوعا للطلاق بل بقولہ سہ طلاق مع النیۃ فافہم فانہ متعین متیقن سوم اضافت در کلام سائل کما فی قولہ دادم فی جواب قولہا مرا طلاق دہ ولہذا ثلث واقع شود لتکرارھا ثلاثا ورنہ کلام دادم نہ برائے طلاق موضوع ست ونہ برائے عدد ثلاثہ چہارم عرف کما کر فی روایت الشامی الطلاق یلزمنی پس در جزئیاتیکہ ہمہ قرائن مفقود باشند طلاق واقع نہ خواہد شد لالعدم الاضافۃالصریحۃبل لعدم مطلق الاضافۃ پس بریں تقریر در مسائل ہیچ گونہ تدافع نیست ھذا ما عندی ولعل عندغیری احسن من ہذا

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved