• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق رجعی کےبعد کہا کہ میری بیوی نہ رہی ،سے طلاق بائنہ واقع ہوئی اوربعد طلاق ثلاثہ لغوچلی گئی

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

مفتی صاحب ! میں نے پہلا طلاق نامہ 3/4/19 کو بھیجا جس کی کا پی ساتھ لف ہےجس کے الفاظ یہ تھے(3/4/2019 کو اپنی بیوی مسماة****** کو طلاق اول دیتا ہوں اور آج کے بعد مسماة****** میری بیوی نہ رہی ہے )۔اس کے بعد میری بیوی میکے چلی گئی اور میں وہاں جاتا رہا اور اپنی بیوی کو ہوٹل بھی لے کر جاتا رہا کھانا کھلانے کے لیے،ہمارا جسمانی تعلق تو نہیں ہوا، البتہ ہم دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے تھے،میں نے کہا تھا کہ چلو ابھی ایک ہی طلاق نامہ بھیجا ہے خیر ہے میری اہلیہ طلاق نامہ بھیجنے سے پہلے ہی امید سے تھی ۔ اس کے بعد 8جون کو میری بیٹی پیدا ہوئی اور دوسرا طلاق نامہ 30/7/19 کو تیار کروایا اور 30 اگست کو (اس کی کاپی بھی ساتھ لف ہے )بھیج دیاجس کے الفاظ یہ تھے(2019-07-30کو اپنی بیوی مسماة****** کو طلاق دوئم دیتا ہوں اور آج کے بعد مسماة***** میری بیوی نہ رہی ہے)اس دوسرےطلاق نامے کے ایک ہفتے بعد ہماری صلح کی بات چلی،اس وقت بھی سسرال گیا تھا تو بات کرتے ہوئے میری بیوی کے بقول میں نے یہ جملہ بول دیا کہ’’ یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘مجھے پکایادنہیں لیکن جو لوگ وہاں موجود تھے  سب کہہ رہے ہیں کہ میں نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں ۔اس ساری صورتحال کے پیش نظر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

(۱)یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘ غصے کی حالت میں بولاتھا؟(۲)اس وقت طلاق کامذاکرہ ہواتھا؟ (۳)طلاق کی نیت  تھی؟

جواب وضاحت(۱)غصہ کی حالت میں بولاتھا(۲،۳)طلاق کی نیت بھی نہیں تھی اور نہ ہی مذاکرہ طلاق تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوچکا ہے۔ اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح جدید کرکے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ:پہلے طلاق نامہ میں ان الفاظ سے کہ ’’مسماۃ ******* کو  طلاق اول دیتا ہوں‘‘  ایک طلاق رجعی واقع ہوئی۔ اور اس کے بعد کے ان الفاظ سے کہ ’’آج کے بعد مسماۃ ****** میری بیوی نہ رہی ہے‘‘ سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن گئی اور بائنہ طلاق میں رجوع کرنا کافی نہیں۔ اور دوبارہ نکاح بھی نہیں کیا گیا لہذا بچی پیدا ہونے سے عدت ختم ہوگئی اور بعد کا طلاقنامہ عدت کے بعد دیا گیا جو کہ غیر مؤثر رہا۔

فتاویٰ عالمگیریہ (356/1) میں ہے:

امرأة قالت لزوجها طلقني فقال لها لست لي بامرأة قالوا هذا جواب يقع به الطلاق ولا يحتاج إلى النية.

رد المحتار (516/4) میں ہے:

قوله: (وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال. قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع كما في اعتدي ثلاثا.

درر الحکام شرح غرر الاحکام(370/1) میں ہے:

(لست لي بامرأة) يعني أن قول الزوج لامرأته لست لي بامرأة (و) كذا قوله لها أنا (لست لك) بزوج (طلاق بائن إن نواه).

فتاویٰ رحیمیہ (300/8) میں ہے:

شوہر کے الفاظ ’’اب یہ عورت میری بیوی نہیں میری ماں بہن ہے‘‘ بہ نیت طلاق کہے گئے ہیں اس لئے طلاق بائن واقع ہوگئی۔

امداد المفتین (523) میں ہے:

’’اسی طرح جو الفاظ شعر میں ہیں کہ (تو میری بیوی نہیں اور میں تیرا شوہر نہیں) یہ الفاظ بھی کنایہ ہی ہیں۔ کما فی العالمگیریہ صفحہ ۳۹۴ جلد۲ ولو قال ما أنت لي بامرأة ولست لك بزوج ونوى الطلاق يقع عند ابي حنيفة خلاصہ یہ ہے کہ اگر مسمیٰ حبیب نے طلاق کی نیت کی یا ذکرِ طلاق کے وقت یہ الفاظ بولے تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی ورنہ نہیں‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved