• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو یہ کہناکہ ’’اگر جاؤگی تو ہمیشہ کےلیے جاؤگی،اب میراتمہارا گزارہ بہت مشکل ہوگیا ہے ‘‘کنائی ہے اس سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان اس بات پر جھگڑا ہوا کہ شوہر نے بیوی کو اپنے والدین کے ہاں جانے سے بالکل منع کردیا اسی حوالے سے جھگڑا کے دوران شوہر نے بیوی سے کہا کہ

” اگر تم یہاں سے جاؤ گی تو ہمیشہ کے لئے جاؤ  گی اگر تم یہاں سے گئی تو میرا تمہارا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا اگر تم جاؤ گی تو ہمیشہ کے لئے جاؤ گی میں بیزار  ہو گیا  ہوں اب میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا ۔اب میرا تمہارا گذارہ  بہت مشکل ہو گیا ہے اپنی گندی اولاد بھی لے جاؤ، اور میں اسٹام پیپر پر لکھ کر دینے کو تیار ہو ں کہ یہ گندی اولاد بھی تمہاری ہے ان کو بھی لے جاؤ”۔

بیوی شوہر کے  گھر سے والدین کے ہاں چلی گئی۔ اس بات کی وضاحت مطلوب ہے کہ مذکورہ الفاظ سے شوہر اور بیوی کا رشتہ باقی رہا  یا ختم ہوگیا وضاحت فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر کی اپنے بولے گئے الفاظ سے طلاق  کی نیت تھی تو بیوی کو ایک طلاق بائنہ پڑگئی ہے۔اور اگر طلاق کی نیت نہیں تھی تو مذکورہ الفاظ سے کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی۔لیکن شوہر کو اپنی بیوی کے سامنے اس بات پر قسم دینی ہوگی کہ میری نیت ان الفاظ سے طلاق کی نہیں تھی۔

امداد الاحکام 2/498میں ہے:

(اس سے قبل سائل نے اپنے الفاظ کے بولنے سے پہلے کے حالات بیان کیے ہیں) اہلیہ کو بہت سمجھانے کے بعد گھر واپس آکر بالاخانہ چلی گئیں  نہ مجھ سے مخاطب ہوئیں  نہ معذرت کیا   بہر صورت  جب مجھ سے صبر نہ ہو سکا تو میں نے اپنے لڑکے فرید الدین کو پکار کر کہا کہ اپنی والدہ کو کھانے کے لیے بھیج دو بعد تامل وہ بالاخانہ سے اتر  کر باورچی خانہ میں جاکر تنہا کھانا کھانے لگیں  میں آنگن میں بیٹھے غصے میں کچھ باتیں فراز و نشیب کی بطور نصیحت کرتا رہا اسی حالت میں یہ کہہ کر اٹھا کہ اگر اس گھر میں جاؤ گی  طلاق ہوجاوے  گی اور متواتر اس کلمے کو کہا   ،اور  دروازہ کھڑکی میں احتیاطاً  قفل لگا دیا کہ اس امر کا وقوع   سہواً یا عمداً   نہ ہو ۔

یہ میری سرگزشت ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ ان الفاظوں کو جو میں نے غضب ناک ہو کر کہے  ہیں اور یہ نیت نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوگا تو یہ ہوگا بلکہ غصہ میں کہہ گیا  کہ کسی شرعی حکم  سے واپس لے سکتا ہوں  ؟اور اس کے بعد  داروغہ عبدالحلیم صاحب کے گھر میں اہلیہ کے جانے کا کچھ حرج تو نہیں ہے؟

الجواب : صورت مسئولہ میں سائل نے صیغہ مضارع  کا استعمال کیا ہے جس سے  طلاق کا وقوع اس وقت ہوتا ہے جب کہ مضارع کا استعمال بمعنی  حال  غالب ہوگیا ہو۔ اردو میں چونکہ حال اور استقبال کا صیغہ جدا جدا ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مضارع بمعنی حال غالب ہے۔ پس صورت مسئولہ میں سائل کا یہ قول کہ آئندہ اگر اس گھر میں جاؤ گی تو طلاق ہو جائے گی تعلیق طلاق نہیں   بلکہ محض وعید  اور دھمکی ہے  جیسا کہ سائل  کے بیان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ارادہ تعلیق کا نہ تھا لہذا اگر زوجہ اس گھر میں  میں چلی جائے گی تو شرعاً طلاق  عائد  نہ ہوگی۔

 قال في العالمكيرية :إذا قال لامرأته في حالة الغضب إن فعلت كذا إلى خمس سنين تصيري مطلقة مني وأراد بذلك تخويفها ففعلت ذلك الفعل قبل انقضاء المدة التي ذكرها فإنه يسأل الزوج هل كان حلف بطلاقها فإن أخبر أنه كان حلف يعمل بخبره ويحكم بوقوع الطلاق عليها وإن أخبر أنه لم يحلف به قبل قوله كذا في المحيط

لیکن اگر زوج کی نیت محض دھمکی کی نہ تھی بلکہ طلاق کو معلق کرنے ہی کی نیت تھ تو اس گھر میں جانے سے زوجہ کو طلاق پڑ جائے گی۔لہذا سائل اپنی نیت کو خود سوچ سمجھ لے اور اس صؤرت ثانیہ یعنی نیت تعلیق میں صرف طلاق رجعی واقع ہو گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved