• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کنائی اورصریح اورمسئلہ طلاق ثلاثہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عورت کا بیان

جھگڑے سے پہلے:

  1. مذاکرہ طلاق نہیں چل رہا تھا، گھر کے امور کے انتظام کی بات چل رہی تھی جس سے غصے کی فضا بن گئی۔
  2. اچھے لمحات میں شوہر نے بارہا مرتبہ کہا تھا کہ’’ تمہیں چھوڑوں گا نہیں یا ہمارے ہاں چھوڑنے کا رواج نہیں‘‘

3.بحث و تکرار کے وقت شوہر نے متعدد بار کہا کہ ’’اگر تم نے اپنی زبان بندنہ کی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘

موجودہ

1.’’تم ہو ہی نہیں اس قابل کہ کسی کے ساتھ گزارا کر لو، تم دفع ہو جاؤ یہاں سے، میری طرف سے جہاں مرضی جاؤ، تیار ہوں میں ابھی میں تمہیں تمہاری ماں کے گھر چھوڑ کر آتا ہوں جو کچھ لینا ہے لے لو میں نے تمہارے لئے بہت کچھ کیا ہے‘‘

2.اس سوال پر کہ کس حیثیت سے ماں کے گھر جاؤں؟ کیا کہوں ان سے جاکر؟ صحیح طرح بتاؤتو جواب میں کہا کہ’’ تم جو چاہو سمجھو‘‘

  1. اس سوال پر کہ کیا تم مجھے طلاق دے رہے ہو پہلے ہاں کہا اور ساتھ ہی کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق نہیں دی ، جاؤ لیتی رہو فتوے ‘‘میں نے کہا کہ کیا میں ساری عمر فتوے ہی لیتی رہوں گی؟خود میری حیثیت واضح کرو تو جواب تھا کہ ’’جاؤ جو مرضی سمجھو‘‘

نوٹ:’’ ہاں‘‘ کے متعلق مجھے پتا نہیں کہ وہ قطعی تھا یا استہزائیہ تھا یا بے اختیاری میں منہ سے نکلا ۔

اس واقعہ کے بیس دن بعد شوہر نے بیوی سے کہا کہ ’’بس کرو اب ناراضگی ختم بھی کر دو‘‘ بیس دن تک دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی، عورت نے اس عرصے کو عدت سمجھا جبکہ شوہرنے ناراضگی۔ دونوں کے شرعی تعلق کی وضاحت چاہیے؟یاد رہے کہ مذکورہ زوجین میں پہلے طلاق بائن ہو چکی ہے، اس کے بعد دوبارہ نکاح ہوا تھا۔

ایک بات رہ گئی کہ جب بیوی نے یہ کہا کہ آپ کو اور سب کا تو بہت خیال ہے مگر آپ نے ابھی تک میرا حق مہر تک ادا نہیں کیا تو شوہر نے غصے میں بھڑک کر کہا کہ’’ اب میں تمہیں حق مہرنہ دوں تو اپنے باپ کا نہیں، تمہیں طلاق بھی دوں گا ،عورت نے کہا کہ بس اب مجھے تم سے نہ حق مہر چاہیے اور نہ کچھ اور جب مہرہی نہیں تو حق کیسا ؟

مرد کا بیان حلفی

جیسا کہ میری بیوی کے بیان سے سارا معاملہ واضح ہے کہ ہم دونوں میں گھریلو امور پر جھگڑا شروع ہوا، دراصل میری دو بیویاں ہیں اور یہ دوسری ہے جو کہ ہمیشہ پہلی کو جواز بناکر جھگڑا شروع کردیتی ہے ،اس دن بھی اسی وجہ سے جھگڑا شروع ہوا پھر بات بڑھتی گئی اور میں نے غصے سے کہا کہ’’ یا تو اپنی زبان بند کر لو یا پھر اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ، میں تمہیں ساتھ نہیں رکھنا چاہتا، جب دماغ درست ہو جائے تو آجانا‘‘ اس کا ہمیشہ یہی سوال ہوتا ہے کہ جب بھی میں کہوں کہ اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ تو وہ اسے یہی تصور کرتی ہے کہ میں اسے طلاق دے رہا ہوں جبکہ نہ میری کبھی ایسی نیت تھی اور نہ ہی اس دن طلاق کی کوئی نیت تھی اور نہ ہی ہمارے درمیان ایسی کوئی بات چل رہی تھی مگر اس دن بھی میری یہی مرضی تھی کہ کچھ دن کے لیے اپنی ماں کے گھر چلی جا مگر اس نے خود مجھ سے کہا کہ میں اسے طلاق دے رہا ہوں اور اس بات پر بے اختیار میں نے ’’ہاں‘‘ کہا  مگر فوراً ہی تردید کر دی کہ میں نے طلاق نہیں دی۔ اس بات پر کیا ہمارا نکاح برقرار ہے یا ٹوٹ گیا؟جو بھی شرعی حیثیت ہو واضح فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر شوہر نے ان الفاظ سے کہ ’’تم دفع ہوجاؤ یہاں سے، میری طرف سے جہاں مرضی جاؤ‘‘  طلاق کی نيت نہیں کی تو ان الفاظ سے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی بشرطیکہ شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دیدے کیونکہ یہ الفاظ کنایات کی پہلی قسم میں سے ہیں جن سے طلاق ہر حال میں نیت پر موقوف ہوتی ہے۔ البتہ آگے بیوی کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیا تم مجھے طلاق دے رہے ہو‘‘ شوہر کے یہ کہنے سے کہ ’’ہاں‘‘ ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی لہذا دورانِ عدت رجوع ہوسکتا ہے۔

اور اگر شوہر نے مذکورہ الفاظ طلاق کی نیت سے بولے تھے یا بغیر نیت کے بولے تھے لیکن طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم نہیں دیتا تو بیوی اپنے حق میں دو طلاقیں سمجھے گی اور چونکہ ایک طلاق پہلے دی جاچکی ہے لہذا اب کل تین طلاقیں ہوکر بیوی اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی اور رجوع یا صلح کی گنجائش ختم ہوجائے گی۔

توجیہ:

مذکورہ صورت میں ایک رجعی طلاق ان الفاظ سے ہوئی کہ جب بیوی نے کہا کہ ’’کیا تم مجھے طلاق دے رہے ہو‘‘تو شوہر نے جواب میں کہا’’ہاں‘‘ الجواب یتضمن اعادۃ ما فی السوال کے پیشِ نظر ’’ہاں‘‘ کا مطلب ہوگا کہ ’’ہاں میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں‘‘۔ اور دوسری طلاق کنائی الفاظ سے طلاق کی نیت ہونے پر موقوف ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

ولو قال لها اذهبي أي طريق شئت لا يقع بدون النية وإن كان في حال مذاكرة الطلاق … (ج:1، ص:376)

ولو قال لها مرا باتو كاري نيست وترا با من ني أعطيني ما كان لي عندك واذهبي حيث شئت لا يقع بدون النية كذا في الخلاصة… (ج:1، ص:385)

در مختار:

تتوقف……. على نية للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما. مجتبى. (ج4، ص50)

فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقا لله تعالى ط عن البحر (ج4، ص521)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved