• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’تم میری بیوی نہیں،میراتمہارامیاں بیوی والا رشتہ ختم ‘‘سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ میں نے اپنے بیٹے کی مدرسہ اورسکول کی طرف سے لاپرواہی اور اساتذہ کی ہر وقت شکایات اور اس کی والدہ کا ان حرکتوں پر پردہ ڈالنے کی وجہ سے غصے میں اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم نے اس کے گھر میں آنے اور جانے کے اوقات کے بارے میں مجھے نہیں بتایا تو تم میری بیوی نہیں پھر دوسری مرتبہ کہا (اسی دوران) کہ میرا تمہارا میاں بیوی کا رشتہ ختم نوٹ: جبکہ دل سے طلاق کی طرف خیال بھی نہیں تھا جیسےکوئی کسی کو یہ کہے کہ ”تم نے بھائی ہونے کا حق ادا نہ کیا” یہ کیفیت تھی اور نہ ہمیشہ کیلئے نیت تھی کہ تم بیٹے کی ساری زندگی کارگزاری دیتی رہو جیسا کہ وقتی طور پر کسی معلومات کیلئے کہا جاتا ہے بیوی سے بچوں کے بارے میں

سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں طلاق تو واقع نہیں ہوئی؟

وضاحت مطلوب:”تم میری بیوی نہیں” "میرا تمہارا میاں بیوی کا رشتہ ختم”یہ دونوں الفاظ متصل کہے تھے یا ان کے درمیان میں کچھ اور بھی کلام کیا تھا؟

جواب وضاحت:پہلے یہ الفاظ کہے کہ”اگر تم نے اس کے گھر میں آنے اور جانے کے اوقات کے بارے میں مجھے نہیں بتایا توتم میری بیوی نہیں” پھر بیوی سے اور اپنے بیٹے سے کچھ کلام کیا پھر آخر میں کہا کہ” اگر تم نے اس کے گھر میں آنے اور جانے کے اوقات کے بارے میں مجھے نہیں بتایا تومیرا تمہارا میاں بیوی کا رشتہ ختم”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ان الفاظ سے کہ” اگر تم نے اس کے گھر میں آنے اور جانے کے اوقات کے بارے میں مجھے نہیں بتایا تو تم میری بیوی نہیں”کوئی طلاق واقع نہ ہوگی چاہے بیوی بچے کے آنے  جانے کے اوقات کے بارے میں بتائے  یا نہ بتائے کیونکہ”تم میری بیوی نہیں ”کے الفاظ سے اگر طلاق کی نیت ہو تو طلاق واقع ہوتی ہے اور اگر نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی اور مذکورہ صورت میں شوہر کی طلاق کی نیت نہیں۔البتہ شوہر  کے ان الفاظ سےکہ ” اگر تم نے اس کے گھر میں آنے اور جانے کے اوقات کے بارے میں مجھےنہیں بتایا تومیرا تمہارا میاں بیوی کارشتہ ختم” اگر شرط پائی گئی یعنی اگر بیوی نے بچے کے آنے اور جانےکےاوقات کے بارے میں نہ بتایا توایک بائنہ طلاق  واقع ہوجائے گی جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوجائے گا تاہم میاں بیوی نیا نکاح کر کے اکٹھے  رہ سکیں گے، نئے نکاح میں گواہوں کا ہونا ضروری ہوگا اور مہر بھی نیا مقرر ہوگا۔

توجیہ:

یہ جملہ کہ "آج سے تیرہ میرا میاں بیوی والا رشتہ ختم ہے” اردو زبان میں دو معنی کا محتمل ہے(1) میاں بیوی والے رشتے سے مراد ہمبستری ہو۔ اس صورت میں مذکورہ جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ اگرچہ تیرا میرا نکاح برقرار ہے تاہم آج سے میں تمہارے ساتھ ہمبستری نہیں کروں گا۔(2)میاں بیوی والے رشتے سے مراد نکاح ہو۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آج سے تیرا میرا نکاح ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہمارا میاں بیوی والا رشتہ ختم ہوگیا ہے لہذا میں تمہارے لئے ایک اجنبی مرد ہوں اور تم میرے لئے ایک اجنبی عورت ہو۔ لہذا یہ جملہ اردو محاورات کے لحاظ سے کنایات طلاق میں سے ہیں اور کنایات طلاق میں سے بھی وہ قسم ہے جن میں  رد یا سب کا احتمال نہیں بلکہ متمحض للجواب ہے۔ ایسا جملہ لڑائی جھگڑے یا غصے کی حالت میں یا مطالبہ طلاق کے موقعہ پر بولا جائے تو اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوجاتا ہے۔

في بدائع الصنائع 4/233.332

فصل واما الكناية فنوعان نوع هو كناية بنفسه وضعا ونوع هو ملحق بها شرعا في حق النية أما النوع الأول فهو كل لفظ يستعمل في الطلاق ويستعمل في غيره نحو قوله انت بائن …لاملك لي عليك لا نكاح لي …وقوله لا نكاح لي عليك لاني قد طلقتك ويحتمل لا نكاح لي عليك اي لا اتزوجك أن طلقتك ويحتمل لا نكاح لي عليك اي لا اطوك لان النكاح يذكر بمعني الوطء 

في الدرالمختار 4/493.494

لست لك بزوج أو لست لي بامرأة او قالت له لست لي بزوج فقال صدقت طلاق أن نواه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved