• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سوء اختیا ر کی ایک صورت

استفتاء

لڑکی کے والد کا بیان

جو نا بالغ بچی  اور بچہ جن کا شرعی نکاح کردیاجاتاہے جبکہ بچی جس کا شرعی نکاح کیا گیا تھا اب وہ تقریباً تین سال  سے جوان ہے لیکن بچہ  ابھی تک جوان نہ ہوا ہے ۔ اور بچی اس شرعی نکاح سے انکاری ہے ۔کیونکہ وہ اس وقت جس وقت اس کا نکاح ہواتھا بالغ تھی اس لیے بچی کہتی ہے  کہ میں اب بالغ ہوچکی ہوں۔ اس لیے اپنانکاح میں خود اپنی مرضی سے کروں گی۔جہاں میرا دل چاہے گا۔

وضاحت  : لڑکی کا نکاح لڑکی کے باپ نے خود کیا  کسی وکیل وغیرہ کے ذریعے نہیں کیا ہے اور  لڑکی نے بالغ ہوتے ہی فوراً نکاح سے انکار کیا اس کے گواہ بھی موجود ہیں(فوراًنکاح سے  انکار کرنے پر)۔

نیز: اس لڑکی کے والد کے کزن نے کسی اجنبیہ سے زنا کیا تو اس لڑکی کے والد کے کزن سے اس کے دشمنوں نے کہا کہ تدارک کے لیے لڑکی کا رشتہ دو وگر نہ علاقے سے نکل جاؤ۔تواس لڑکی کے والد کی منت سماجت کرکے اس لڑکی کو نکاح میں دینے کے لیے تیار کردیا۔

نیز:عام طورپر اس  منکوحہ کے والد کے خاندان میں اس عمر کی بچی جواس جیسے اوصاف والی ہو (یعنی عقل اور ہوشیاری ودین  داری ودیگر اوصاف میں  اس  جیسی ہو)تو اسوقت  یعنی 1998ء میں 500روپےاس کا  بطور مہر کے مقرر کیا جاتاتھا۔اوراس بچی کے نکاح میں بھی  500روپے بطور مہر مقرر کیاگیا تھا۔

نیز: دین داری کے اعتبار سے لڑکے کا گھرانہ دین دار ہے بلکہ دونوں گھرانے دین داری میں برابر ہیں،پیشہ اور مالداری کے اعتبار سے لڑکےکا والد محنت مزدوری کرکے  بہت بمشکل اپنا گذارہ کرتا ہے  اور میں لڑکی کا والد ڈرائیونگ کرتاہوں میرا کام اچھا چل ر ہا ہے۔ میری ایک ہی بیٹی ہے جس کا میں نے نکاح کیا۔

نیز: لڑکی اس لیے انکار کرتی ہے کہ لڑکا اور اس کے بھائی ان پڑھ اور غیر سلیقہ دار ہیں اور لڑکے کے گھرانہ میں کوئی نظم وضبط اور نہ کوئی  تہذیب ہے۔

لڑکے کے والد کا بیان

جناب اعلیٰ  میں****ولد **** قوم شیخ لکھ کر دے رہا ہو ں کہ میرا بیٹا اور **** ولد ****ڈیوایا کی بیٹی ہم نے آپس میں  کسی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے شرعی نکاح کیا تھا۔ اس وقت یہ دونوں بچے نابالغ تھے۔ اور اب جو کہ بچی  ہے وہ بالغ ہے ۔ اور بچہ نا بالغ ہے ہم نے خدا کی رضا کے لیے راضی ہوگئے ہیں اور  یہ   جہاں بھی کریں رشتہ ہماری طرف سےاجازت ہے ۔

نیز:1998ء میں نکاح کیا تھا بچہ  چھ ماہ کا تھا اور بچی 6، 7 سال کی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب نابالغہ کا نکاح باپ نے کیا ہو اور لڑکی کی مصلحت کو نظر انداز کرکے کسی   اور غرض کو سامنے رکھتے ہوئے  نکاح کیا ہو تو لڑکی بالغ ہو کر اپنا نکاح فسخ کرا سکتی ہے اور چونکہ  مذکورہ  صورت میں بھی یہ بات واضح ہے کہ باپ نے لڑکی کی مصلحت کو مد نظر نہیں رکھا ہے۔ لہذالڑکی بذریعہ عدالت  اپنا نکاح فسخ کرکے دوسرے جگہ نکا ح کرسکتی ہے ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved