• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مکان کی تقسیم

استفتاء

سال 1965  میں میرے والد صاحب نےکریم پارک میں ایک پلاٹ 5 مرلے کا لیز کرایہ پر لیا تھا۔ جو کہ کرایہ  ،لیز سال

1965 سے 1990 تک کے لیے تھا۔ اس پلاٹ پر اپنی ذاتی رقم سے ایک کمرہ، ایک برآمدہ اور دو عدد دکانیں تعمیر کی، اوریہ دکانیں اور کمرہ وغیرہ ابھی تک موجود ہیں۔ 1980 میں میرےوالد کا قضائے الہٰی سے انتقال ہوگیا۔ ہم تین بھائی اور ایک بہن تھے، 1982 میں میں نے اپنی ذاتی رقم سے اس پلاٹ  پر ایک کمرہ نیچے  اور ایک کمرہ اوپر تعمیر کیا تھا۔ کیونکہ میری شادی ہونے والی تھی۔ 1983 میں پلاٹ کے مالک نےکریم پارک کے تمام کرایہ دار جو کہ ان کے پلاٹ پر اپنے  اپنے گھر تعمیر کر کے رہ رہے تھے ان کو عدالت کے ذریعے نوٹس دیا کہ  وہ جگہ خالی کردیں۔ عدالت میں کیس چلتا رہا اور عدالت نے فیصلہ دیاکہ جگہ 1990 سے پہلے خالی نہ کی جائے، تاہم اگر کسی نےجگہ خریدنی ہے تو اس کے ریٹ عدالت نے مالک کی مشاورت سے مقرر کر دیئے، جگہ کاریٹ 13000 روپے مرلہ مقرر ہوا، میں نے کافی کوشش کرکے رجسٹری کے لیے رقم جمع کرنی شروع کی اور تقریباً 40000 روپے جمع ہوتے اور مزید رقم کا  بندوبست نہ  ہورہا تھا۔ جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی تو میری والدہ نے  کہا کہ ان کے پاس سونے کی چوڑیاں ہیں۔ انہیں فروخت کرکے رقم پوری کرلو۔ گھر ہو گا تو سب کچھ ہوگا۔ میں نے  مجبوراً والدہ کی سونے کی چوڑیاں فروخت کی وہ جوڑیاں مبلغ 20000  میں فروخت ہوئیں۔ اب میرےپاس کل 60000 روپے جمع ہوگئے تھے۔ جس میں سے 40000 روپے میرے اور 20000 روپے میری والدہ کے تھے۔ زمین کی کل مالیت تقریباً 60000 روپے بنتی تھی، جوکہ اس طرح میں نے ادا کر کے اور رجسٹری کروائی، چونکہ میں اس وقت سرکاری ملازم تھا۔  اس لیے رجسٹری والدہ کے نام پر کروائی تھی۔ اس کے بعد تقریباً  1986 میں میرے بڑے بھائی لاہور چھوڑ کر اپنے بچوں کو لے کر کراچی چلے گئے تھے اور آج تک وہیں رہائش پذیر ہیں۔

میرے ایک بھائی جوکہ مجھ سے چھوٹا ہے اس کا ذہنی توازن خراب ہو گیا۔ کافی علاج کروایا مگر فرق نہ پڑا۔ آج کل وہ سوشل ویلفیر کمپلکس گرین ٹاون میں داخل ہے۔ میری والدہ  2001 میں قضائے الہٰی سے انتقال کر گئیں اور سال 2002 میں میری ایک بہن جوکہ معذور تھی اور میرے ساتھ ہی رہائش پذیر تھی اس کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس وقت ہم تین بھائی ایک بھائی پڑا جو کہ کراچی چلا گیا تھا۔ اور ایک بھائی جوکہ ذہنی مریض ہے اور ایک بہن حیات ہیں۔ میں نے اپنی والدہ  سے لی ہوئی رقم نہ تو واپس کی ہے اور نہ ہی  اس کے بارے میں کبھی کوئی بات والدہ کی زندگی میں ہوئی تھی۔ میری والدہ کو 2000 میں فالج ہو گیا تھا۔ اور 2001 میں ان کا انتقال ہوا تھا۔

اندریں حالات میری رہنمائی  فرمائیں کہ موجودہ مکان کی قرآن و حدیث اور دین اسلام کی روشنی میں کیا حیثیت ہوگی؟ اور اگر میں نے  بھائیوں کو حصہ ادا کرنا ہے  تو کس طرح اور کس شرح سے کیونکہ آج تک بڑے بھائی  سے مجھ نے اس بارے میں نہ پوچھا ہے کہ میں نے  رجسٹری کیسے کروائی تھی۔ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں، تاکہ میرے مرنےکے بعد مجھ  پر کوئی بوجھ نہ رہ جائے۔ مکان اس وقت بھی میری والدہ کے نام ہے اور  میں اس میں رہائش پذیر ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صور ت میں آپ اپنے بھائی کو ساری صورت حال سےآگاہ کریں  اس کے بعد صرف پلاٹ میں سے دو حصے صرف آپ کے ہیں اور پھر ایک حصے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ بڑے بھائی کو اور ایک حصہ معذور بھائی کو دیں اورایک حصہ خود رکھیں۔ اس کے بعد پلاٹ پر تعمیر شدہ ملبے کی قیمت لگوائیں۔ اس تعمیر میں سے جو کمرے آپ نے اپنے پیسوں  سے تعمیر کروائے ہیں وہ صورت آپ کے ہیں اور جو کمرے  یا دکانیں والد صاحب کے پیسوں سے تعمیر ہوئے ہیں ان میں آپ تینوں بھائیوں کا برابر کا حصہ ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved