• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقوں کے تعلیق سے بچنے کا طریقہ

استفتاء

میری شادی  کو تقریباً سترہ سال ہوگئے ۔ میری شادی والدین کی رضامندی سے دین دار باشرع شخص سے ہوئی لیکن شادی کے بعد معلوم ہواکہ وہ ڈپریشن کے پرانے مریض ہیں۔ شروع میں تو سال میں دو یا تین دفعہ شدید ڈپریشن یعنی چیخنا چلانا اور معمولی سی بات پر شدید غصہ میں آجانا مجھے اور میرے گھر والوں کو برا بھلا کہنا وغیرہ، اور پھر تھوڑی دیر بعد خود بالکل نارمل ہوجانا جبکہ میرے ذہن پر اس واقعہ کا اثر دنوں بلکہ ہفتوں تک رہتاہے، بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کروایا سب نے مختلف قسم کا ڈپریشن بتایا اور علاج کو ضروری بتایا لیکن انہوں نے دوائی پابندی سے نہیں لی۔

شادی  کے بعد دودفعہ تجدید نکاح ہوا وجہ کچھ نہ بتائی کہنے لگے احتیاطا کررہا ہوں واضح کچھ نہ بتانا نہ مجھے  کوئی واضح بات نظر آئی تقریبا دوسال سے طبیعت بہت خراب رہنے لگی یعنی اکثر غصہ چیخ وپکار،چڑا چڑا پن بیوی اور بچوں کو ڈانٹنا وغیرہ اور بیوی کو کہنا کہ میں تم سے بیزار ہوگیا ہوں مجھے تم سے محبت نہیں ہے پھر بھی میں بچوں کی خاطر تم سے گذارہ کررہاہوں مجھے تمہارے خاندان والوں سے چڑ ہے وغیرہ ۔

ایک سال پہلے کسی ناخوشگوار واقعہ کیونکہ سے مجھے کہا تھاکہ اگر تم نے یہ واقعہ کسی کو بتایا تو تم پر تین طلاق ۔ لیکن میں نے ابھی تک کسی کو نہیں بتایا۔

ابھی پندرہ دن پہلے میں کپڑے  دھورہی تھی میری ساس کہنے لگی کہ میری بیٹی کی شادی کو پچیس سال ہوگئے ابھی تک اپنے مسائل اور پریشانیاں مجھے نہیں بتائیں تو میرے منہ سے بھی نکل گیا کہ میں نے بھی تو سترہ سال تک کسی کو نہیں بتایا اب بتایا ہے تو یہ الفاظ میرے شوہر نے سن لیے اور طیش میں آگئے اور بہت کچھ برا بھلا کہا اور پھر کہنے لگے کہ  میں اگر ظالم ہوں تو تم ظالم کی مدد کرو اسے ظلم کرنے سے بچاؤ (یہ جملہ اکثر کہا کرتےتھے) ۔بچوں کی چھٹیاں ہیں تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ تم دو مہینوں کی چھٹیا ماں باپ کے گھر گذار و میں تمہیں چھوڑ آؤنگا ۔ لیکن میں بضد تھی  کہ اگر میں چلی گئی تو بڑے بچے جو مدرسے جاتےہین ان کو تکلیف ہوگی۔

 اسی دن دوپہر کو کھانے پر دسترخوان پر ہم سب بیٹھے کھانا کھارہے تھے میری نند بھی آئی ہوئی تھیں میرے شوہر سے کہنے لگی کہ بیوی بچوں کو یہاں رہنے دو یہ لوگ یہاں سکون سے رہ رہے ہیں تمہیں کیا تکلیف ہے میرے شوہر دوبارہ غصے میں  آگئے اور کافی بحث ہونے لگی پھر میرے شوہر نےکہاکہ تم ہمارے معاملےمیں نہ بولو یہ میرے بیوی بچے ہیں میں جہاں چاہے رکھوں میری نند نےکہا کہ یہ ظلم ہے تم ہر وقت ان کے اوپر اپنی مرضی چلاتے ہو۔

میں کھانا کھا رہی تھی جب نند سے بات ختم ہوئی تو مجھ سے کہنے لگے ” اگر تم نے آئندہ مجھے کچھ کہا تو تم پر تین طلاق” میرے شوہر کے کہنے کے مطابق میں نے ناشکری کے الفاظ کہے تو تم پر تین طلاق۔ لیکن میر ی یاداشت  کے مطابق ناشکری کے الفاظ نہیں کہے تھے صرف یہ کہا تھا کہ ” آئندہ تم نے مجھے کچھ کہا تو تم پر تین طلاق”۔

تین دن بعد میں اپنے ماں باپ کے گھر آگئی  دوسرے دن بچوں سے ملنے آئے اور مجھ سے پوچھا کہ گھر کب آؤگی تو میں نے کہا ابھی میں استخارہ کرونگی (کیونکہ میرے شوہر کا رویہ کچھ عرصے سے میرے ساتھ انتہائی نازیبا ،ہتک آمیز اور باقابل برداشت ہوگیاتھا) اور اپنے والدین سے مشورہ کرونگی تو کہنے لگے میں تو تم سے بیزار تھا ہی تم بھی مجھ سے بیزار ہوگئیں۔ تو میں نے کہا کہ میں ظالم کو ظلم سے بچانے  آئی ہوں( یہ انہی کے الفاظ تھے جو وہ اکثر کہا کرتے تھے میں نے دہرادیئے تو خاموش ہوکر  چلے گئے  ( یہ الفاظ میں شرطیہ طلاق یعنی تم نے کچھ کہا تو تم پر تین طلاق کے بعد کہے)۔

آٹھویں دن فون پر پوچھا کہ تمہارے استخارے میں کیا آیا تو میں نے کہا کوئی واضح چیز تو نہیں دیکھی لیکن میرا دل ابھی آنے کو نہیں چاہ رہا۔ کہنے لگے تم بچوں کو لیکر ٹیکسی میں آجاؤ نہیں تو میں اس طرف تعلق نہیں رکھوں گا معاملہ ختم کردونگا۔ پھر تھوڑی دیر بعد فون کیا اور کہا تم آرہی ہو یا نہیں میں نے کہا ابھی نہیں آرہی تو فون پر کہا کہ ” میں نے  تمہیں آزاد کیا” اور فون بند کردیا۔

ا س کے بعد بہت دفعہ فون کیا اور کہا تم آجاؤ ابھی طلاق بائن ہوئی ہے دوبارہ نکاح پڑھ لینگے لیکن مجھے اشکال ہے کہ کیونکہ میرے شوہر کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے اس وجہ سے مجھے بلا رہے ہیں طلاق کے مسئلہ کو سمجھ نہیں رہے  ورنہ میں نے جتنے لوگوں سے پوچھا ہے سب نے کہا کہ طلاق واقع ہوگی ہے یعنی طلاق مغلظہ ہوگئی ہے۔ اب وہ مجھے بار بار فون کرتے ہیں کہ میری ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے میں بیمار ہوں بچوں اور تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وغیرہ۔

 شریعت میں اس کا کیا حکم ہے جبکہ میرے شوہر اس پر بضد ہیں کہ طلاق بائن  ہوئی ہے۔ بالفرض اگر طلاق مغلظہ نہیں بھی ہوئی تو میرے شوہر نے اتنی کڑی شرطیہ طلاق دی ہے کہ اس سے بچنا کیونکر ہوسکتاہے جبکہ لفظ ناشکری کے تشریح بھی بہت وسیع ہے میں ذرابھی زبان کھولی یا ہوسکتاہے  کہ آئندہ مستقبل میں مجھے علم بھی نہ ہو اور میرے منہ سے کوئی ایسا لفظ نکل جائے جس کی وجہ سے مجھے طلاق پڑھ جائے لہذا میرے خیال میں احتیاط اسی میں ہے کہ میں اپنے شوہر سے دور رہوں۔

اگر طلاق ہوچکی ہے تو عدت کیسے گذاری جائے اور شوہر سے فون پر بچوں کے حوالے سے کوئی بات کرنے کی گنجائش شریعت میں ہے یانہیں اور بچے کس کے پاس رہینگے؟ میرے پانچ بچے ہیں۔ پہلا بیٹا ۱۶ سال ، دوسری بیٹی ۱۵ سال،تیسرا بیٹا ۱۱ سال، چھوٹا بیٹا۶ سال، اور پانچویں بیٹی ۵ سال ۔ جبکہ بچے ماں کے پاس رہنے کو پسند کرتےہیں۔ 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق صریح ہوگئی ، عدت گذرنے دیں۔ عدت گذرنے کے بعد عورت مرد کو کہہ سن لے اور ناشکری کے الفاظ بھی کہہ لے ۔ اس وقت یہ کچھ کہنے سے طلاق نہ ہوگی اور قسم بھی ختم ہوجائے گی ، اس کے بعد دوبارہ نکاح کرلیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved