• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدالتی خلع کی شرعی حیثیت

استفتاء

ہم نے اپنی ہمشیرہ کی شادی دوسال قبل کی لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پرا ب نباہ مشکل ہوگیاہے۔ ان دوسالوں میں بات کئی مرتبہ طلاق تک پہنچی ہے مگر ہر دفعہ لڑکی غیر مشروط طور پرواپس چلی گئی کہ کسی طرح نباہ ہوجائے، لیکن بار بار کوشش کے بعد لڑکی اب گھر واپس آگئی ہے اور کہتی ہے کہ میں اب مزید اس بندے کے ساتھ نہیں چل سکتی، لڑکا نہایت شکی مزاج ،ضدی اور بد زبان ہےاورباربار کے تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کا بدلنا ممکن نہیں لگتا، اب میری طبیعت بالکل ہٹ گئی ہے اور دل میں عزت واحترام بھی ختم ہوگیاہے۔لڑکا اخراجات برداشت کرتاہے پھر اس کے حقوق بھی ادا نہ ہو تو یہ ناشکری ہے اور میں مسلمان ہوکہ ناشکری نہیں کرنا چاہتی لہذا میری جدائی کروادی جائے۔

لڑکے کی طبیعت سے متعلق مندرجہ ذیل واقعات ہمارے سامنے ان دوسالوں میں آئے:

۱۔ لڑکی کے موبائل میں Device لگاکر گھر آنے پر اسکی باتیں سننا۔

۲۔گھر آکررہنے نہ دینا اور چوبیس مرتبہ جب آئی تو لڑکر بات طلاق تک پہنچادینا، بذات خود جب ساتھ آتا تو واپسی پر شدید لڑنا اور ایک دفعہ غصہ میں چیخیں بھی مارنا۔

۳۔بھائ اور باپ کے رشتے پر  قسم کے شک کرنا۔

۴۔ بات منوانے کے لیے اپنی کلائی کاٹنا اور خون نکالنا۔

۵۔شدید زد وکوب کرکے کپڑے پھاڑکر سامان دے کر گھر سے نکالنا۔

۶۔ لڑکے کے والدین کا بھی لڑکی پربہتان لگانا اور اس کی شادی نبھانے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرنا۔

۷۔بات بات پر جھوٹ بولنا اور جھوٹی باتیں منسوب کرکے لڑکی اوراس کے اقارب کے درمیان نفرت پیدا کرنا۔

۸۔ ہروقت سائے کی طرح ساتھ رہنا حتے کہ رات کو اگر حاجت کے لیے جائے تو اٹھ کر دروازہ پر کھڑے  رہنا۔

۹۔لڑکی کے والد کے سامنے اس پر ا سکے کزن کے متعلق بہتان لگانا۔

۱۰۔پرانی سہیلوں کے ساتھ ہم جنس پرستی ۔جیسا  غیر انسانی اور گھناؤنا الزام لگانا

۱۱۔ گالیاں نکالنا اور بعض اوقات ہذیانی انداز میں ان کو بڑبڑاتے رہنا۔

۱۲۔ ہر دفعہ قسم کھا کر اور وعدہ کرکے لڑکی کو ساتھ لے جانا اور پھر بالکل مکر جانا کہ میں نےکوئی بات کی بھی ہے۔

۱۳۔باربار مصالحت کے باوجود کوئی کوشش کارگرنہ ہونے دینا۔

اس دفعہ پھر لڑکا قسمیں کھارہا ہے  اور واپسی کا کہتاہے  ، ورنہ سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتاہے۔ اس لیے اب ہمارا عدالت میں جانا اور پولیس پروئیکشن لینا بھی ضروری ہے۔ حضرت صاحب یہ حالات آپ کے سامنے ہیں۔

۱۔ کیا ان حالات میں لڑکی کا خلع کا مطالبہ  ٹھیک ہے۔ کرسکتی ہے؟

۲۔لڑکا ضدپر ہے کہ میں خلع نہیں دوں گا۔ اور لڑکی کا اب واپس جانا خطرہ سے خالی نہیں ، توکیا جج کے فیصلہ سے خلع ہوجائے گی یا ہر حال میں لڑکے ہی سے لینا پڑے گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہماری عدالتوں میں نہ توصحیح طریقے سے خلع کرایا جاتاہے اور نہ ہی صحیح طریقے سے نکاح فسخ کیا جاتاہے۔ لہذا عدالت سے خلع لے لیں لیکن اس کا فائدہ تحفظ کا ہوگا۔ محض اس کی بنیاد پر کسی دوسری جگہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اگر عدالت سے خلع لینے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنا مطلوب ہوتو اس وقت پھر مسئلہ پو چھ لیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved