• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تیسری طلاق نہ دینے پر شوہر سے قسم لی جائے

استفتاء

میری  شادی 7 جنوری 2007  میں ہوئی، شادی کے تقریبا ایک ماہ تک رویہ سسرال والوں کا ٹھیک تھا، تقریبا ایک ماہ بعد میرے شوہر کا کاروبار میں نقصان ہوا۔ ان کا ہال روڈ پر سی ڈیز کا کاروہے۔ جس کی وجہ سے گھر میں لڑائیاں جھگڑے شروع ہوگئے ، میری ساس مجھے منحوس قرار دیتی کہ اس کے آنے کی وجہ سے  نقصان ہواہے۔ اور ساتھ ہی پہلے مہینے وضع حمل نہ ہونے پر برا منایا، لیکن دوسرے مہینے وضع حمل ہونے پر بھی برا منایا ، یہ تم اپنے امی ابو کے گھر جاؤ وہاں کھاؤ پیو اور جب مجھے چوتھا مہینہ تھا تو اس وقت مجھے میرے امی ابو کے گھر بھیج دیا، پھر میں اپنی امی کے گھر رہی  اور میری بیٹی ہوئی اور جب وہ ڈھائی مہینے کی ہوئی تو میں دوبارہ اپنے سسرال گئی۔ حمل کاسارا عرصہ میں نے اپنے والدین کے گھر گزارا ۔ اور پیدائش کا ساراخرچہ میرے والدین نے اٹھایا۔ مجھے اس  سارے عرصے میں میرے شوہر نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا ۔ جب میں نے فطری تقاضوں کے بارے میں بات کی تو انہوں نےکہا کہ مجھے اس چیز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

جب میں ڈھائی مہینے کی بچی کے ساتھ سسرال واپس گئی تو  سسرال والوں نے بچی کو گونگا بہرا اور معذور قرار دیا، مگر میں نے صبر واستقامت سےکام لیا۔ یہاں تک کہ اس کے سارے ٹیسٹوں کے بعد بچی ٹھیک ثابت ہوئی۔ اس تمام عرصے میں ساس کا رویہ کافی نامناسب رہا۔ اب روز میری ساس میری معمولی معمولی غلطیوں پر مجھے میرے میکے بھیج دیتی تھیں۔ میکے چھوڑنے اور سسرال واپس چھوڑنے کی ذمہ داری میرے والدین سرانجام دیتے تھے اور میرا شوہر اپنی والدہ کی مرضی کے بغیر مجھے فون نہیں کرتاتھا۔ اور نہ  لینے آتاتھا۔

اس وقت تک میرے گھروالوں کا رویہ میری بچی کے ساتھ بہت اچھا تھا ، اس کی تمام ضروریات اور میری ضروریات بہت اچھے طریقے سے پوری کرتےتھے۔

شروع میں مجھے شک تھا کہ میرے شوہر عورتوں سے باتیں کرتےہیں ، کیونکہ جب بھی میں ان کے پاس آئی تو وہ فون بند کردیتے اور چھت پر جاکر بھی دوتین دن انہوں نے رات کو بات کی۔ ایک دفعہ میں نے خود ان کو عورت سے بات کرتے سنا تھا۔

محلے کی ایک پارلر والی عورت جس کی شہرت اچھی نہیں اس نے بتایا تھاکہ میں تمہارے شوہر کو جانتی ہوں اور اس کا تعلق میرے پارلر پر ایک کام کرنے والی لڑکی کے ساتھ تھا۔

مگر میرے استفسار پر میرے شوہر نے مسجد  کے سامنے قسم کھاکر بتایا کہ میر تعلق کسی کے ساتھ نہیں۔

 گھر میں لڑایئوں کا سلسلہ جاری تھا۔ کھانے پینے میں مجھے اجازت کی ضرورت ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر انڈے اور ڈبل روٹی گن کر رکھتی اور دودھ دیگچی میں کم ہونے پر پوچھنا وغیرہ۔اپنے ماں باپ سے فو ن پر  بات کرنے پر کئی دفعہ پابند ی بھی تھی ، میرے والدین میرے شوہر کے موبائل پر فون کرکے خیریت پوچھتے میرے شوہر چوری میری بات کرواتے۔

آخر کار حالات اتنے خراب ہوگئے کہ میری ساس نے میراکمرے سے نکلنا بند کردیا۔ اوردوسال تک مجھے کھانا پکانے کی اجازت بھی نہیں دی۔ اور میں ایک خوف ودہشت کی فضا میں رہی اور میری ساس ذراغصے کی تیز تھی۔

میرے شوہر آہستہ آہستہ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے رات کو دیر سے آنا شروع ہوگئے۔

ایک دفعہ ایک سوٹ جو میری ساس نے میری بچی کو تحفہ دیاتھا۔ اس کو پہناتے وقت مجھ سے اس کا گلا پھٹ گیا تو اس پر میری  ساس اور سسر نے میری باز پرس کی او ر میں گھر کے صحن میں روپڑی تو میر ساس اور نے غصے میں میرے شوہر کو بتایا تو ان کو کہا کہ تم اس گھر سے نکل جاؤ تو انہوں نے اپنا قصور پوچھا تو ان کے والدین نے کہا کہ ہم تمہاری بیوی سے بہت تنگ ہیں ۔ تو اس با ت پر میرے شوہر نے یہ الفاظ ادا کیے” جا عمارہ میں نے تجھے طلاق دی”۔

اس بات پر اس کے والدین نے اس کو ڈانٹا تواس نے مجھ سے معافی مانگی اور رجوع کرلیا۔ اور مجھے یہ بات اپنے گھروالوں کو بتانے سے منع کیا، اور اس وعدے پر مجھے امی ابو کے گھر آنے کی اجازت دے دی۔

اس واقعے کے چھ مہینے بعد اب میری ساس نے ایک معمولی سی بات کو بنیاد بناکر جھگڑے کا آغاز کیا، میرا شوہر جو شدید ذہنی اذیت کا شکار تھا اس نے پھر غصے میں آکر  دوسری دفعہ ” جا عمارہ میں تجھے طلاق دے دی”۔ اس کے بعد فورا اس کی ماں نے اس کو روکنے کے لیے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی وجہ سے میں صحیح طورپر نہ سن سکی کہ آگے انہوں نے کیا بولا ہے۔

مگر طلاق کالفظ تیسری دفعہ بھی سنائی دیا۔ میں اس وقت شدید پریشانی کے حالت میں تھی۔ اس  واقعے کے چار دن تک میں اپنے سسرال میں رہی اور میرے شوہر کا کوئی ارادہ اس وقت رجوع کا نہیں تھا۔ میرے شوہر نے میرے ابو کو گھر  بلایا تو میرے سسر نے اس وقت میرے ابو کو کہا کہ لڑکے اور لڑکی کی صلح کروا دیں تو میرے ابو اس وقت دوطلاقوں کا سن کر غصے میں آگئے اور مجھے اپنے گھر لے آئے ۔یہاں آنے کے چار دن بعد میرے شوہر آئے اور مجھ سے معافی مانگی اور میرازیور جو ان کے گھر میں تھا وہ دے گئے اور مجھے فون کرنا شروع کردیا۔

 میرے ابو کی شرط یہ ہے کہ اب وہ اپنے گھر والوں کو منائیں اور اپنے رشتے داروں میں سے بڑوں کو لے کر انہیں اور علیحدہ گھر میں  تو آپ لے جاسکتےہیں ، مگر میرے شوہر نے کہا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس نہیں جاؤں گا اور یہ کہ میں اپنے رشتے داروں میں سے کسی کو نہیں لاسکتا اور اس کی بجائے وہ اپنے چار دوستوں کو لے آئے ا س کو میرے ابو نے معتبر نہیں سمجھا۔

جب میرے والدین  میرے سسرال والوں سے  پندرہ دن بعد ملے تو انہوں نے بتایاکہ میرے شوہر نے مزید 25لاکھ کا نقصان کیا ہے تو انہوں نے اس نقصان کو پورا کرنے کی بات کی تو وہ اس بات پر ہر وہ گھر چھوڑکر چلا گیاہے۔اورآپ اپنے بیٹی کو اپنی گارنٹی پر اس کے ساتھ بھیجیں ہم اس کی ذمہ داری نہیں اٹھائیں گے کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔

مگر اس وقت میں اس تذبذب میں مبتلاء ہوں کہ میرے شوہر نے مجھے تیسری دفعہ بھی طلاق کا لفظ بولا ہے کہ مجھے تیسری طلاق بھی ہوگئی ہے۔مگر میرے شوہر کو پوچھنے پر وہ قسم اٹھانے کو تیا رہیں اور قران مجید بھی اٹھانے کو تیار ہیں کہ میں  نے تیسری دفعہ طلاق نہیں دی۔

 میں نے یہ بولا تھا کہ اگر تم چپ نہ ہوئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ مگر دی نہیں تھی ، روک لی تھی۔ اور دو طلاقیں ہی ہوئی ہیں۔ اور میں تم سے رجوع کرناچاہتاہوں۔ اور وہ اپنی امی کو اوراپنی ملازمہ کو بھی  گواہ بنانے کو تیارہے۔ کہ تیسرے طلاق نہیں دی۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ شرعی لحاظ سے میری تیسری طلاق ہوئی یا نہیں؟ کیا میں اس آدمی کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں یا نہیں؟ حالانکہ مجھے ان کی بات کا اعتبار بھی ہے کہ انہوں نے تیسری طلاق نہیں دی ہوگی۔ میرے والدین اس شخص کا بالکل اعتبار نہیں کرتے اور میرے والد نے میرے شوہر سےیہ کہا ہے کہ تمہاری بیوی اور بیٹی ہمارے پاس امانت ہیں تم اپنا کاروبارجماؤ اور گھر لو تو پھر اس کو لے جاؤ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر سے تیسری مرتبہ طلاق نہ دینے پر قسم لی جائے اگر وہ قسم کھالے تو دو طلاقیں شمار ہوں گی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved