• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ سے مغلوب ہونے کی حالت میں طلاق

استفتاء

بیان حلفی

میرانام***ہے، میرے والد صاحب کا نام***ہے ۔ میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہوں۔ میرے والد محترم۔۔ کے مریض ہیں۔ انہیں عرصہ دراز سے بلڈ پریشر کی تکلیف ہے ۔ وہ*** ہسپتال کے پروفیسر کے زیر علاج ہیں۔ مجھے یعنی بلڈ پریشر کی شکایت کے علاوہ مرگی کے دورے پڑنے کا مرض بچپن سے لاحق ہے۔ جس کا سبب بچپن میں سر میں دوجگہ چوٹ لگنا ہے۔ اور جس کے علاج کے لیے میں باقاعدہ دوائی لیتارہاہوں۔ اب ایک عرصہ سے میں یہ دوائی بوجہ سستی نہیں لے رہاہوں۔  کچھ  عرصہ پہلے دفتر میں میرا اپنے افسر سے جھگڑاہوگیا تھا جس کی وجہ سے میں ذہنی دباؤکا شکار اور پریشان رہتاتھا۔ مرگی کے دورے اور خصوصاً بلڈپریشر جو کہ ہمار ے خاندان میں عام بیماری ہے کی وجہ سے مجھے غصہ یا اشتعال جلدی آجاتا ہے۔

میری شادی عرصہ تیرہ ،چودہ سال پہلے نومبر 1996 کو غیرخاندان میں ہوئی۔ میرے تین بچے ہیں۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹی بڑی ہے جس کی عمر تقریبا گیارہ سال ہے۔

میرا سسرال ***میں رہائش پزیر ہے۔ میرے سسر 2005 ، میں وفات پاچکے ہیں۔ میرے والدین کو میری بیوی کے میکے جانے پر اکثر شکایت رہتی ہے۔جوکہ میری دانست میں غیر ضروری ہے۔

میری بیوی 2010۔09۔1 کو صبح میری اجازت سے اپنے میکے گئی  ہوئی تھی ۔ اسی شام ٹھیک افطاری سے ایک یا دو منٹ پہلے جب میں اور میرے والد محترم دیگر اہل خانہ کے ہمراہ افطاری کی تیاری کررہے تھے تو اچانک والد محترم نے مجھے سے سوال کیا کہ میری بیوی کدھر ہے ، میں نے جواب دیا کہ وہ اپنی ماں کے گھر گئی ہے۔ والد صاحب نے سوال اعتراض کیا کہ وہ گاڑی (شوہرکی) کیوں لے کر گئی ہے، میرا اور والد صاحب دونوں کا روزہ تھا۔ اس سے پہلے بھی پچھلے دو تین ماہ کے دوران والد صاحب مجھ سے میری بیوی کے حوالے سے اعتراض کرچکے تھے۔جوکہ میری دانست میں غیر ضروری تھا۔ اسی لیے میں اپنے والد صاحب کو کہ چکاتھا کہ میری آپ سے گذارش ہے کہ میں نے ارادہ کیاہے کہ میں نے سارے روزے رکھنے ہیں اوررمضان المبارک کے دوران قرآن مجید بھی ختم کرنا ہے لہذا آپ اس جھگڑے سے پرہیز کریں۔کم از کم ماہ رمضان میں مجھ سے اس بابت جھگڑامت کریں۔ لیکن اس کے باوجود افطاری سے ٹھیک ایک یا دو منٹ پہلے والد صاحب کی بے وقت کی تکرار پر مجھے سخت صدمہ ہوا۔ میری عمر تقریباً چالیس سال ہے ۔ اسی تلخ کلامی میں میرے والدصاحب نے مجھے تھپڑ مارا جس کی وجہ سے غصے میں میں نے میز پر پڑی افطاری کی تمام چیزیں بمع میز الٹ دیں اور بے بسی کی حالت میں میں نے اپنی بیوی جو کہ غیر موجود تھی کا نام لیے بغیر چھ مرتبہ (میں نے اس کو طلاق دیا) کہہ دیا۔ حالانکہ مجھے ازخود اپنی بیوی سے ایسی کچھ خاص شکایت نہیں تھی۔ میں اس کی عزت کرتاہوں خیال کرتاہوں۔کیونکہ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے  اور اس نے میرے والدین سے لے کر گھر کے دیگر افراد تمام کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک  روارکھا ہے۔ ان سب کی خدمت کی ہے جس کا گواہ میرے گھرکا ہر فرد ہے ۔ مجھے بھی میری بیوی نے کبھی کسی غلط کام پر نہیں اکسایا۔ بلکہ اس نے مجھے ہمیشہ نماز پڑھنے اور نیک کام  کرنے کی تلقین کی  ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ والد محترم کی بے  جا تکرار کی وجہ سے میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا اور مجھے یہ  سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔جب میں نے طلاق کی بات کی تو میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہاتھا، والدصاحب کے سامنے حالانکہ میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ،کیونکہ میری بیوی پاکباز اور سب کا خیال رکھنے والی ہے۔ غصے اور ۔۔۔کی حالت میں اور شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے بلا ارادہ  میں نے طلاق کے الفاظ کہے ۔ اور میں وہاں سے اٹھ کراپنے کمرے میں چلاگیا۔ جہاں پر میں نے روزہ افطار کیا اور مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا جس پر میں فوراً مسجد نور کے قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، مسئلہ بیان کیا ،قاری صاحب نے مجھے واقعہ کی تفصیل تحریری طور پر پیش کرنے کو کہا جوکہ میں نے  کردی ہے۔ اب میں پریشان ہوں اور آپ سے رہنمائی کی درخواست کرتاہوں ۔

یہاں ایک بات واضح کرتاچلوں کہ میں نے طلاق کے الفاظ اداکرتے وقت اپنی بیوی کا نام نہیں لیا نہ ہی وہ موقع پر موجود تھی۔ اوریہ بالکل بلاارادہ تھا، میں خداکو حاضر ناظر کرکے کہتاہوں کہ میں نے جو کچھ کہا وہ سوفیصد بلاارادہ اور صرف والدمحترم کی وجہ سے جو ذہنی دباؤ کا شکار ہوا کی وجہ سے کہا۔ مجھے اپنی بیوی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطی کی معافی مانگتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے پوری امید بھی رکھتاہوں کہ وہ میری اس نادانی کو معاف فرمائیں گے۔

لیکن اس کے باوجود میں آپ سے درخواست کروں گاکہ جوبھی قرآن،وسنت کی روشنی میں فیصلہ ہو مجھے قبول ہے ۔ اور میں اسی پر زندگی آگے چلانا چاہوں گا۔ میں کوئی باٹ غلط تحریر کرکے اس مقدس رشتے کو پا مال نہیں کرنا چاہتا(میاں بیوی کا رشتہ)۔لہذ ا اگر میں نے غلطی کی ہے تو مجھے اس کی سزا ملنی چاہیے لیکن اگر قرآن وسنت کی روشنی میں کوئی گنجائش باقی ہے تو میں اپنے اللہ کا شکرگزار ہوں گا۔ اور اس کے لیے میں نے شکرانے کے نفل ادا کرنے کا ارادہ کیاہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کا کفارہ بھی اداکرنے کو تیار ہوں۔ اگر میرے والد محترم میری اس تحریر سے اتفاق کرتے ہیں تو وہ بھی یہاں دستخط فرمادیں۔

والد کابیان

میں تصدیق کرتاہوں کہ شاہد نواز جب سولہ سال کا تھا تو 1988 میں اس کے سر پر چھوٹ لگی تھی، اور اسے ۔۔۔ کا مرض لاحق ہوگئی ۔ جیساکہ اس کے منسلکہ ریکارڈ سے ظاہر ہے ۔ کافی عرصہ تک یہ زیر علاج رہا۔ شروع میں ۔۔۔۔اور بعدمیں ۔۔۔۔گولیاں لیتارہا۔ اس مرض کے بعد اس کے مزاج میں غصہ آنا بڑھ گیا۔ اس کو کسی بات پر اچانک اور فوری غصہ آجاتا ہے ۔ غصے کا عمل شدید ہوتاہے اور بعض اوقات چیزیں اٹھا کر پھینک دیتاہے۔ جیساکہ زیر واقعہ یعنی 2010۔9۔1 کو روزہ افطاری کے وقت کیا۔اس سے پہلے بھی ایک موقع پر اس نے  ٹیلیفون سیٹ زمین پر دودفعہ دے مارا ۔ غصے کی حالت میں یہ اپنے قابو میں نہیں رہتا۔ اسے موروثی بلڈپریشر کی بی شکایت ہے۔ پہلے افطاری کی چیزیں پھینک دیں اور پھر میز اٹھاکر الٹ دیا۔ ہم یہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ شاہد نے طلاق کے الفاظ ادا کرتے وقت اپی بیوی کا نام نہیں لیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں غصہ سے مغلوب الحال ہونے کی صورت ہے ۔ اس سے طلاق نہیں ہوئی اور نکاح بحال ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved