• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

1۔شوہر نے اپنی بیوی سے پیدا ہونے والی بچی کے نسب کا انکار کرکے اقرار کرلیا تو کیا حکم ہے؟، 2۔بچی کا خرچہ شوہر کے ذمہ کب تک رہے ہوگا؟، 3۔بیوی اور بچی کا گزشتہ زمانے کا خرچہ بھی شوہر کے ذمہ ہوگا یا نہیں؟ 4۔بچی کی پرورش کا حق والدہ کو کتنے سال تک حاصل ہے؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بہنوئی عبداللہ بن وارث صاحب ایک سال کے لئے بیرون ملک گئے، جانے کے چند دن بعد سسر نے داماد عبداللہ کو ایک نیک آدمی جو علاقہ کے بڑے ہیں ان کے ذریعے پیغام مبارکبادی کا بھیجا کہ آپ کی اہلیہ دو ماہ سے حاملہ ہے، یہ عبداللہ صاحب خاموش ہوگئے۔  جب بچی پیدا ہوئی تو عبد اللہ کو خوشخبری دی تو انہوں نے کہا کہ یہ میری نہیں ہے۔

ہمارے علم کے مطابق عبداللہ صاحب کے کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی تعلقات چل رہے تھے۔ جب سال بعد واپس گھر آئے تو بیوی کو گھر سے الزام لگا کر نکال دیا کہ یہ بچی میری نہیں ہے اور دوسری شادی کرلی۔ لڑکی والوں نے کہا کہ بے شک آپ دوسری شادی کرلیں لیکن بیوی پر الزام نہ لگائیں۔ چار سال تک طلاق کا مطالبہ کرنے پر بھی الزام لگاتے رہے لیکن طلاق نہیں دی، مجبوراً علمائے کرام کے مشورے پر  عدالت میں کیس کیا، عدالت میں عبد اللہ صاحب نے کہا کہ میں غلطی پر تھا بچی میری ہے جب کہ انہوں نے بچی کو گلا دبا کر مارنے کی کوشش بھی کی تھی اور اب بھی لوگوں کے سامنے کہتے ہیں کہ بچی میری نہیں ہے۔

۱۔ عدالت میں یہ اقرار کرتا ہے کہ بچی میری ہے اور باہر یہ کہتا ہے کہ میری نہیں، تو کیا بچی اس کی ہوگی یا نہیں؟

۲۔  اگر بچی اس کی ہوگی تو کیا سزا ہوگی ان چار سال الزام لگانے کی شریعت کی نظر میں؟

۳۔ عبد اللہ صاحب پر بچی کا خرچہ آئندہ کتنے سال تک لازم ہوگا؟

۴۔ پچھلے چار سال سے جو بچی پر اور بیوی پر خرچہ ہوا وہ کس کے ذمہ ہے؟

۵۔ بچی کتنے سال والدہ کے پاس رہے گی جبکہ اس شخص نے اس کو مارنے کی کوشش بھی کی ہے؟

نوٹ: عدالت میں کیس اس لئے کیا تھا کہ شوہر بیوی کو طلاق دے، اور جو الزام اس نے لگایا ہے اس کی سزا دی جائےاور بچی کی پرورش کا حق کس کو ہے اور خرچہ کس پر ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ مذکورہ صورت میں بچی عبد اللہ بن وارث ہی کی کہلائے گی کیونکہ بیوی سے جو بچہ پیدا ہو شریعت کی نظر میں وہ شوہر کا ہی شمار ہوگا اور اگر شوہر اس کا انکار کرے تو لعان کے بغیر اس کے انکار کا اعتبار نہیں اور لعان بھی تب ہوسکتا ہے جب ایک مرتبہ بھی شوہر نے بچے کے اپنے ہونے کا اقرار واعتراف نہ کیا ہو جبکہ مذکورہ صورت میں شوہر اس بچے کے اپنا ہونے کا اعتراف کرچکا ہے لہٰذا اب لعان کرکے بھی اس بچے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

المحیط البرہانی (369/16) میں ہے:

قال محمد رحمه الله: إذا تزوج الرجل امرأة، وجاءت بولد لستة أشهر منذ تزوجها والزوجان حران مسلمان، فادعى أحدهما أنه ابنه وكذبه الآخر فهو ابنه منها؛ لأن هذا الولد ولد النكاح القائم بينهما لما جاءت لستة أشهر منذ تزوجها، وولد النكاح ثابت النسب من صاحب النكاح لا ينتفي نسبه إلا باللعان.

نیز (223/5) میں ہے:

أما إذا ثبت بإقراره أو بطريق الحاكم لا ينتفي بعد ذلك، وأما إذا ثبت بإقراره فلأنَّ الإنكار بعد الإقرار غير مسموع

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب:…. لثبوت النسب ثلاث مراتب الاول النکاح الصحیح وما هو فی معناه من النکاح الفاسد والحکم فیه أنه یثبت النسب من غیر دعوة ولا ینتفی بمجرد النفی وانما ینتفی باللعان فان کام ممن لا لعان بینهما لا ینتفی نسب الولد.

۲۔ جب کوئی شخص دارالاسلام میں اپنی زندہ بیوی پر زنا کی تہمت لگائے جس سے اس کا نکاح صحیح تھا فاسد نہیں تھا اور جس نے عمداً یا شبہ سے حرام صحبت بھی نہ کی ہو اور میاں بیوی دونوں گواہی دینے کے لائق ہوں یا جو بچہ پیدا ہوا اس کے بارے میں کہے کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے نہ معلوم کس کا ہے اور عورت چاہے کہ شوہر پر اس الزام کی وجہ سے قذف کی حد لگے تو اس کا حکم یہ ہے کہ عورت مسلمان جج کی عدالت میں جائے اور فریاد کرے۔ عدالت میں اگر شوہر اپنے الزام کے جھوٹا ہونے کا اقرار کر لے تو اس کو حد قذف لگے گی۔ الخ  (ماخوذ از مسائل بہشتی زیور جلد۲، ص۱۳۵)

رد المحتار (151/5)میں ہے:

ونفي الولد بمنزلة صريح الزنا

نیز در مختار (152/5) میں ہے:

(فمن قذف) بصريح الزنا في دار الإسلام (زوجته) الحية بنكاح صحيح…. (وصلحا لأداء الشهادة) على المسلم…… (أو) من (نفى نسب الولد) منه، أو من غيره (وطالبته) أو طالبه الولد المنفي (به) أي بموجب القذف وهو الحد عند القاضي…… (لاعن) خبر لمن: أي إن أقر بقذفه، أو ثبت قذفه بالبينة، فلو أنكر ولا بينة لها لم يستحلف وسقط اللعان (فإن أبى حبس حتى يلاعن، أو يكذب نفسه فيحد) للقذف..

۳۔ بچی کا خرچہ شادی سے پہلے پہلے باپ کے ذمہ ہے، شادی کے بعد اس کے شوہر کے ذمہ ہوگا۔ البتہ اگر بچی کا کوئی بھی ذریعہ آمدن ہو تو پھر باپ کے ذمہ خرچہ واجب نہیں۔

در مختار مع رد المحتار (345/5) میں ہے:

(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر……………..

(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا…

(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية. قال الخير الرملي: لو استغنت الأنثى بنحو خياطة وغزل يجب أن تكون نفقتها في كسبها كما هو ظاهر، ولا نقول تجب على الأب مع ذلك، إلا إذا كان لا يكفيها فتجب على الأب كفايتها بدفع القدر المعجوز عنه، ولم أره لأصحابنا. ولا ينافيه قولهم بخلاف الأنثى؛ لأن الممنوع إيجارها، ولا يلزم منه عدم إلزامها بحرفة تعلمها. اه أي الممنوع إيجارها للخدمة ونحوها مما فيه تسليمها للمستأجر بدليل قولهم؛ لأن المستأجر يخلو بها وذا لا يجوز في الشرع، وعليه فله دفعها لامرأة تعلمها حرفة كتطريز وخياطة مثلا.

(قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة

۴۔ اگر عدالت کے ذریعے یا باہم رضامندی سے بیوی یا بچی کے خرچہ کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں ہوئی تھی تو گزرے ہوئے زمانے کا خرچہ شوہر پر لازم نہیں۔ البتہ اگر حاکم کچھ مقدار مقرر کردے یا باہم میاں بیوی کسی خاص مقدار پر اتفاق کرلیں تو اس تاریخ سے آئندہ کے لئے وہ مقدار بطور قرض شوہر کے ذمہ واجب ہوگی اور عورت اس کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے۔

در مختار مع رد المحتار (315/5) میں ہے:

(والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض.

قوله: (والنفقة لا تصير دينا إلخ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة….

ثم اعلم أن المراد بالنفقة نفقة الزوجة، بخلاف نفقة القريب فإنها لا تصير دينا ولو بعد القضاء والرضا، حتى لو مضت مدة بعدهما تسقط كما يأتي وسيأتي أن الزيلعي استثنى نفقة الصغير ويأتي تمام الكلام عليه عند قول المصنف قضى بنفقة غير الزوجة إلخ

نیز (377/5) میں ہے:

(قضى بنفقة غير الزوجة) زاد الزيلعي والصغير (ومضت مدة) أي شهر فأكثر (سقطت)

(قوله غير الزوجة) يشمل الأصول والفروع والمحارم والمماليك (قوله زاد الزيلعي والصغير) يعني استثناه أيضا فلا تسقط نفقته المقضى بها بمضي المدة كالزوجة، بخلاف سائر الأقارب. ثم اعلم أن ما ذكره الزيلعي نقله عن الذخيرة عن الحاوي في الفتاوى، وأقره عليه في البحر والنهر وتبعهم الشارح مع أنه مخالف لإطلاق المتون والشروح وكافي الحاكم

وقال الرافعي تحته: قول الشارح: (زاد الزيلعي والصغير) ما قاله الزيلعي هو الذي عليه العمل الآن وهو أرفق …

فتاویٰ رحیمیہ (445/8) میں ہے:

’’(سوال  ۵۰۳)ایک مطلقہ عورت نے عدت کا زمانہ اپنے والدین کے گھر گذارا اور عدت کے زمانہ کا خرچہ نہ شوہر نے ادا کیا اور نہ عور ت نے مانگا، اب چند سالوں  کے بعد عورت اس شخص سے گذرے ہوئے عدت کے خرچہ کا مطالبہ کر رہی ہے، تواس کا مطالبہ صحیح ہے؟ کیا شوہرپر گذرے ہوئے عدت کے زمانہ کا نفقہ ادا کرنا لازم ہے ؟ نیز اس مطلقہ عورت نے اپنی چھوٹی بچی کی پرورش کی ہے، اب وہ عورت بچی کے اخراجات کا بھی مطالبہ کر رہی ہے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ بینوا توجروا۔

(الجواب): صورت مسئولہ میں  جب کہ زوجین کی باہمی رضامندی سے عدت کے نفقہ کے لئے کوئی مقدار متعین  نہیں  ہوئی اور نہ کسی شرعی قاضی یا شرعی پنچایت نے مقرر کی تو ایسی صورت میں  صحیح قول کے مطابق عورت گذرے ہوئے عدت کے زمانہ کے نفقہ کا مطالبہ نہیں  کرسکتی، يہ نفقہ شوہر پر قرض نہیں  ہوگا کہ اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہو۔ اسی طرح بچی کے اخراجات بھی متعین نہیں  ہوئے اور عورت اپنی مرضی سے اس پر خرچ کرتی رہی تو بچی کے اخراجات کا بھی عورت مطالبہ نہیں  کرسکتی۔ الخ‘‘

۵۔ نو سال کی عمر تک بچی کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہوتا ہے، اگر ماں کا انتقال ہوجائے یا وہ لینے کو تیار نہ ہو یا وہ طلاق کے بعد کسی ایسے مرد سے نکاح کرلے جو بچی کے لئے نامحرم ہوتو پرورش کا حق نانی کو حاصل ہوگا۔ اور نو سال کے بعد باپ لے سکتا ہے تاکہ وہ بچی کی حفاظت کرے اب عورت کو روکنے کا حق نہیں۔

مسائل بہشتی زیور (143/2) میں ہے:

’’میاں بیوی میں جدائی ہوگئی اور طلاق مل گئی اور گود میں بچہ ہے تو اس کی پرورش کا حق سب سے پہلے ماں کو ہے۔ ماں لینے پر تیار نہ ہو اور دوسرے لینے پر تیار ہوں تو پھر پرورش کا حق نانی کو پھر پڑنانی کو اس کے بعد دادی کو ہے۔ یہ نہ ہوں تو سگی بہنوں کو حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کی پرورش کریں ۔ اس کی بہنیں نہ ہوں تو سوتیلی بہنوں کو مگر جو ماں شریک بہنیں ہیں وہ پہلے ہیں پھر باپ شریک بہنیں ہیں ۔ پھر خالہ اور پھرپھوپھی۔ اگر ان عورتوں میں سے کوئی نہ ہوتو پھر باپ زیادہ مستحق ہے پھر دادا پھر سگا بھائی پھر باپ شریک بھائی پھر سگے بھائی کے لڑکے پھر باپ شریک بھائی کے لڑکے وغیرہ پھر چچا تایا پھر چچا زاد بھائی وغیرہ۔ اگر یہ مرد رشتہ دار جن کا ذکر ہوا اور جو عصبہ ہیں یعنی جن کے ساتھ رشتہ میں عورت کا واسطہ نہیں آتا اگر نہ ہوں تو پھر ذوی الارحام یعنی وہ رشتہ دارجن کے ساتھ رشتے میں عورت کا واسطہ آتا ہے ان کا حق ہے۔ ان میں مقدم ماں شریک بھائی ہے۔ پھر اس کا بیٹا ہے پھر ماں شریک چچا پھر سگا ماموں ہے۔ پھر ماں شریک ماموں ہے وغیرہ۔‘‘

در مختار (/5259) میں ہے:

باب الحضانة: (تثبت للأم) النسبية ………. (ثم) أي بعد الأم بأن ماتت أو لم تقبل أو سقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وان علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث

نیز (274/5) میں ہے:

(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية ……… (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى ………. (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.

وقال الشامي تحته: قوله: (كذلك) أي في كونها أحق بها حتى تشتهى. قوله: (وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved