• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تم آزاد ہو ،جہاں مرضی جاؤ‘‘سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میرا سوال یہ ہے کہ جب بھی کوئی بات ہو یا کوئی لڑائی جھگڑا ہو، تو انہوں نے مجھے بس یہی ایک بات کہی ہے کہ ’’میری طرف سے تم آزاد ہو، جہاں مرضی جاؤ‘‘۔ پہلی مرتبہ پانچ سال پہلے یہ جملہ کہا تھا، اور اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال بعد دوبارہ یہی جملہ بولا کہ ’’میری طرف سے تم آزاد ہو، جہاں مرضی جاؤ‘‘۔ اور جب یہ بات گھر والوں کے سامنے آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میرا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا کہنے کا ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے بعد آج تک کبھی وہ میرے قریب بھی نہیں آئے۔

پلیز بتائیں کہ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا میرا نکاح باقی ہے؟

اس سلسلے کو تقریباً چھ سال ہو گئے ہیں، اور اب میں اس کے ساتھ اس کے گھر میں رہتی ہوں لیکن ہمارا کوئی ایسا ریلیشن (جسمانی تعلق) نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی جس کی وجہ سابقہ نکاح ختم ہو چکا ہے  لہذا اب اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں اور آئندہ شوہر کو دو طلاقوں اختیار ہو گا،اور اگر عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو اس بات کی بھی اسے اجازت ہے کیونکہ عدت گزر چکی ہے،

توجیہ: ” میری طرف سے تم آزاد ہو” کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے اور کنایات طلاق کی تیسری قسم سے غصہ کی حالت میں بیوی کے حق میں نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے لڑائی جھگڑے کے دوران مذکورہ الفاظ بولے ہیں اس لیے مذکورہ جملہ بولنے کی وجہ سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی،پھر دوسری مرتبہ ڈیڑھ سال بعد یہی جملہ بولا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ شوہر نے عدت کے گزر جانے کے بعد مذکورہ جملہ بولا ہے اور طلاق کے واقع ہونے کے لئے بیوی کا نکاح یا عدت میں ہونا ضروری ہے۔ نیز اگر شوہر یہ جملہ عدت میں بھی بولتا تو پھر بھی دوسری طلاق واقع نہ ہوتی لأن البائن لا يلحق البائن.

درمختار مع ردالمحتار (4/521)میں ہے:

ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

فتاوی شامی(4/419) میں ہے:

(قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة.

امدادالاحکام(2/610) میں ہے:

اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ "وہ میری طرف سے آزاد ہے” اس کنایہ کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب و مذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved