• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں تین طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

لڑائی کےدوران غصے میں 3بار طلاق کا کہا اورکہا کہ ’’میں نے فارغ کیا،‘‘غصے سے کہا کہ’’میں تمہیں طلاق دیتاہوں ، طلاق دیتاہوں،طلاق دیتاہوں ‘‘

بیوی کا بیان

تین بار کہا ہے اورمیں نے کہاٹھیک ہے۔

نوٹ:بیوی حاملہ ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:غصے کی پوری نوعیت بیان کریں کہ کیا تھی؟

جواب وضاحت:مفتی صاحب ہمارا جھگڑا ہورہا تھا جس میں میری بیوی باربار مجھ سے تقاضا کررہی تھی کہ مجھے فارغ کردیں جس میں مجھے غصہ آیا تومیں نے طلاق دی اورتین دفعہ دی۔طلاق کے الفاظ بولتے وقت مجھے غصہ تھا البتہ یہ معلوم تھا کہ میں طلاق دے رہا ہوں اورخلاف معمول ،خلاف واقع کوئی کام نہیں کیا البتہ بیوی کو ماراتھا۔اور بیوی نے بھی مجھ پر ہاتھ اٹھایا جس پر یہ سب کچھ ہوا(سائل سے فون پروضاحت لی۔وسیم)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر  نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصے میں اس سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل صادر ہوا ہے غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

شامی (4/439)میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله.

و فيه بعد اسطر:

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠]

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved