• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’تین مرتبہ طلاق کالفظ بولنا اورایک سمجھنا‘‘

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام لف  نوٹس کے بارے میں کہ جس کی تفصیل یہ یوں کہ اس شخص کو خاندان کی طرف سے کہا گیا کہ آپ اپنی بیوی کو ایک طلاق دینے کےلیے عدالت آؤ،عدالت میں پہنچ کراس نے کہا مجھے طریقہ نہیں معلوم کہ ایک طلاق کیسے دوں؟ اس کو بتایا گیا کہ آپ کہو ’’طلاق ،طلاق،طلاق ،اس طرح ایک طلاق ہو جائے گی ،یہ عمل تین تین ماہ بعد دومرتبہ مزید دھرائیں گے توتین طلاقیں ہوجائیں گی چنانچہ اس نے کہہ دیا طلاق ،طلاق،طلاق،لو میری طرف سے ایک طلاق لکھ کربھیج دو ‘‘ اس کےبعد تحریر لکھی گئی جس کی تحریریوں ہے(بعد میں سائل نے وضاحت دینے پر یہ مذکورہ تفصیل بھیجی ہے) :

’’منکہ********* بھکر کا ہوں، برضا مندی خود  بقائمی ہوش و حواس خمسہ کے بلا جبر اس طور پر تحریر کر دیتا ہوں کہ من مقر کی شادی مورخہ 2019 کو ہمراہ مسماۃ ******* ضلع بھکر ہو چکی ہوئی ہے۔ زوجہ ام مذکوریہ عرصہ ایک ماہ سے غیر آباد ہو کر اپنے میکے گھر بیٹھی ہوئی ہے من مقر نے مذکوریہ کو آباد کرنے کی کافی کوششیں کیں لیکن وہ تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں مذکوریہ اور اس کے والدین نے طلاق کا مطالبہ کیا ہے اس لیے من مقر نے برادری فیصلہ میں مذکوریہ ثوبیہ نورین دختر باتی شیر کو روبرو گواہان حاشیہ پہلی طلاق دے دی ہے مذکوریہ آئندہ میرے نفس پر حرام ہے۔ مابین فریقین بوقت شادی و رخصتی جو لکھ پڑھ اقرارنامہ شادی نمبر 169 تحریر ہوا تھا جس کی شرائط من مقر نے بحق مسماۃ **** تحریر کردی تھیں، وہ لکھ پرڑھ اقرارنامہ ھٰذا نمبر169 آج سے کینسل تصور ہوں گی۔ان کی قانونی حیثیت نہ ہو گی۔ہر دو فریقین کی طرف سے ایک دوسرے کو جہیز کا سامان مکمل اور من مقرکے زیور ونقدی رقم دلوانے کے لیے من مقر کی طرف سے ضامن حافظ خوشی محمد ولد لعل خان اور مذکوریہ کی طرف سے محمد حیات خان ولد محمد بخش مقرر کئے گئے ہیں‘‘

آیا کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے "طلاق،طلاق ،طلاق” کہنے سے سے تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے ۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کو معلوم نہیں تھا کہ تین مرتبہ طلاق کا لفظ بولنے سے تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اس کے باوجود تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی کیونکہ شریعت کے احکام میں جہالت عذر نہیں،

اس کے علاوہ مذکورہ صورت میں لفظوں میں اگرچہ بیوی کی طرف طلاق کی نسبت موجود نہیں لیکن معنوی طور پر نسبت موجود ہے کیونکہ شوہر نے بیوی کےطلاق دینے کے مطالبہ کے جواب میں "طلاق، طلاق، طلاق "بولا ہے لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔

فتاوی شامی(4/179)میں ہے:

(قوله للعلم) أي لأنها تتفرغ لمعرفة أحكام الشرع والدار دار العلم فلم تعذر بالجهل بحر أي أنها يمكنها التفرغ للتعلم لفقد ما يمنعها منه، وإن لم تكلف به قبل بلوغها.

امدادالفتاوی جدید مطول (5/193) میں ہے:

الجواب: عمرو کی سب تقریر محض باطل ہے اور اس کے ابطال میں کچھ لکھنا اشتغال بما لایعنی ہے، کیونکہ زید کا یہ گمان جھل ہے نہ کہ خطأ،اس کو خطأ سمجھنا عمرو کی خطأ ہے، اور جہل احکام شرع میں عذر نہیں۔

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved