• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’اگر اب واشنگ مشین کو ہاتھ لگایا تو تین طلاق‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے دوران لڑائی کہا "اگر اب واشنگ مشین کو ہاتھ لگایا تو تین طلاق” اس سے شوہر کی مراد یہ تھی کہ بیوی کپڑے نہ دھوئے۔ اب اس کی بیوی اگر صرف مشین کو ہاتھ لگا دے تو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی یا باقاعدہ طور پر مشین میں کپڑے دھونے سے طلاق واقع ہوگی  اور واشنگ مشین کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ خشک بھی کر دیتی ہے کیا  خشک کئے ہوئے کپڑے مشین سے نکالنے سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:

مذکورہ جملہ کہنے سے پہلے کس بات پر لڑائی چل رہی تھی؟ مکمل صورتحال واضح کریں۔

جواب وضاحت:

بیٹی سکول سے آئی اور اس نے کہا میرا پیپر اچھا نہیں ہوا آپ (والدہ) نے بد دعا دی ہے۔ والدہ نے کہا کہ میں تو ماں ہوں، میں کیوں بد دعا دوں گی میں کپڑے دھو کر استری کرکے دیتی ہوں۔ اس پر شوہر کو غصہ آیا اور یہ الفاظ بولے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر کی نیت صرف بیٹی کے کپڑے دھونے سے منع کرنے کی تھی تو صرف بیٹی کے کپڑے مشین میں دھونے سے تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی ، کیونکہ بات بیٹی کے کپڑے دھونے کی چل رہی تھی لہٰذا دلالت حال کی وجہ سے بیٹی کے کپڑوں کی نیت کا اعتبار درست ہوگااور اگر مطلقا کپڑے دھونے سے روکنے کی نیت تھی تو مشین میں کوئی بھی کپڑے دھونے سے تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی ۔

باقی  مشین کو ہاتھ لگانے سے یا خشک کئے ہوئے کپڑے مشین سے نکالنے سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی کیونکہ ہمارے عرف میں ہاتھ لگانے سے استعمال کرنا مراد لیا جاتا ہے اور حلف میں حالف کے عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے۔

تین طلاقوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک بائنہ طلاق دے دے پھر عدت کے بعد بیوی مشین میں کپڑے دھو لے اس کے بعد میاں بیوی نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرلیں۔ تجدید نکاح کے بعد شوہر کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا اور آئندہ مشین میں کپڑے دھونے سے کوئی طلاق  واقع نہیں ہوگی۔

مبسوط (8/200)میں ہے:

"دخل رجل على رجل فدعاه إلى الغداء فحلف أن لا يتغدى، ثم رجع إلى أهله فتغدى لم يحنث؛ لأن يمينه إنما وقعت جوابا لكلامه، ومعنى هذا أن مطلق الكلام يتقيد بما سبق فعلا أو قولا، حتى لو قامت امرأته لتخرج، فقال لها: إن خرجت فأنت طالق. كانت يمينه على تلك الخرجة، فكذلك إذا دعاه إلى الغداء، فقال: إن تغديت معناه الغداء الذي دعوتني إليه، ولو صرح بذلك لم يحنث إذا رجع إلى أهله وتغدى، ولا إذا تغدى عنده في يوم آخر، فكذلك هنا. والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب، وإليه المرجع والمآب.

شامی (449/5) میں ہے:

مطلب الأيمان مبنية على العرف

(قوله وعندنا على العرف) لأن المتكلم إنما يتكلم بالكلام العرفي أعني الألفاظ التي يراد بها معانيها التي وضعت لها في العرف.

ہدایہ میں ہے:

و اذا اضافه الى شرط وقع عقيب الشرط مثل ان يقول لامراته ان دخلت الدار فانت طالق

فتاوی عالمگیری (6/397) میں ہے:

إذا حلف بثلاث تطليقات أن لا يكلم فلانا فالسبيل أن يطلقها واحدة بائنة ويدعها حتى تنقضي عدتها، ثم يكلم فلانا، ثم يتزوجها كذا في السراجية.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved