• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

آپ آزاد ہو،میری اب ختم ‘‘سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہم دوبھائیوں کی شادی جس گھر میں ہوئی ہے اسی گھر میں ہماری دو بہنوں کی شادی بھی ہوئی ہے یعنی وٹہ سٹہ کی شادیاں ہیں، ہم دو بھائیوں( حسن مجتبی،استقامت رضا) کی شادی پہلے ہوئی، ہماری شادی کے بعد کافی بحث و مباحثے،نوک جھوک کے بعد ہماری دو بہنوں کی شادیاں بھی وہاں کردی گئیں،شادی کے پہلے دن ہی انہوں نے ہماری بہنوں کو بتا دیا تھا کہ ہم نے شادی ضد میں کی ہے شادی کے بعد وہ لڑکے ایک ماہ گھر رہے پھر بیرون ممالک چلے گئے ،بیرون ملک جانے کے بعد تقریبا دو یا تین ماہ بعد یعنی شادی کے پانچ ماہ بعد وہاں سے فون کرکے ہماری بہنوں کو یہ کہہ کر کہ تمہارا رویہ ٹھیک نہیں ہے، ہمارے گھر بھیج دیا، پہلے مجھ(استقامت )کو میری بہن کے شوہر (نعمان)نےفون پر کہاکہ’’ گھر یہ بتا دیں نعمان کی طرف سے آپ آزاد ہو ،میری طرف سے آپ کو کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں‘‘ میرے پوچھنے پر کہ کیا کہا آپ نے ؟ دوسری مرتبہ جوابا پھر کہا’’گھربتا دیں میری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے‘‘ پھر کہا کہ’’ ہم نے گھرمیں مشورہ کیا ہےاور باجی کا ارادہ بھی نہیں ہے ‘‘پھر مجھے یعنی استقامت کو کہا کہ آپ بھی مشورہ کرلیں آپ نے کیا کرنا ہے؟میں نے کہا کہ کیا صلاح (ارادہ )نہیں ہے؟تو جواب دیا کہ’’ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ مہران (جو کہ گفتگو کرنے  والے نعمان کا بھائی ہے ) ’’ بھی کہہ رہا ہے میری اب ختم ہے‘‘ اور باجی (یعنی مجتبیٰ کی بیوی )بھی بتا رہی ہے ’’میں نے اب نہیں جانا ،میں نہیں رہتی‘‘ پھر نعمان نے مجھے کہا کہ آپ مہربان سے بات کر لیں پھر مہربان نے بھی یہی کہا کہ بھائی نعمان نے آپ کو بتا دیا ہے’’ میں بھی یہی کہتا ہوں، یہ کام شادی والا ہی غلط ہوا ہے، کل اگر میرے بچے ہو جائیں اور کل مجھے بھیجنا پڑےتو میں ایسا رسک کبھی نہیں لیتا، راضی نامےکے ساتھ یہ ختم کرتے ہیں‘‘ یہ دونوں بھائی (نعمان اور مہران )بیرون ملک سے پاکستان چھٹی آئےمگر میری بہنوں کو لینے نہیں آئے بلکہ نعمان اپنی بہن کو لے کر ہمارے گھر آیا اور میرے ابو جان کو کہا کہ’’ میری بہنوں کو فیصلہ دیں‘‘ اور مجھے فون پر نعمان نے کہا ہے کہ ’’میں مسئلہ کے حل کے لیے آیا ہوں نہ ہی بچے سے ملنے آیا ہوں بلکہ میں تو اپنی بہن کا سامان لینے آیا ہوں ‘‘یہ باتیں کرنے کے بعد واپس بیرون ملک چلے گئے ۔

1.مذکورہ بالا صورتحال میں کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟

  1. اگر ہوگئی ہے تو ایک واقع ہوئی ہے یا تین؟

3.علاوہ ازیں کوئی بہتر حل تجویز فرمادیں ہماری بہنوں کا وہاں گزارہ از حد مشکل ہوچکاہے۔ جواب جلدی ارشاد فرمائیں

وضاحت مطلوب ہے کہ نعمان  نے مذکورہ جملہ کس حالت میں بولا تھا ؟غصہ کی حالت تھی یا نارمل حالت تھی ؟یا مطالبہ طلاق کے جواب میں بولا تھا؟

جواب وضاحت:

نعمان نے جب یہ جملہ بولا تو غصہ کی حالت تھی، مذاکرہ طلاق نہیں تھا۔

اور مہران نے نارمل حالت میں مذکورہ جملہ بولا تھا،غصہ نہیں تھا، مذاکرہ طلاق بھی نہیں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نعمان کا یہ جملہ کہ’’ گھر یہ بتا دیں نعمان کی طرف سے آپ آزاد ہو،میری طرف سے آپ کو کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں‘‘  کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے، اور کنایات طلاق کی تیسری قسم سے غصہ کی حالت میں بیوی کے حق میں نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا غصہ کی حالت میں مذکورہ جملہ بولنے کی وجہ سے نعمان کی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے۔

اور مہران کا یہ جملہ ” میری اب ختم ہے ” کنایات طلاق کی دوسری قسم میں سے ہے اور کنایات طلاق کی دوسری قسم سے حالت رضا میں نیت سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، چونکہ مہران نے مذکور جملہ حالت رضا میں بولا تھا لہذا مذکور ہ جملہ سے اگر مہران کی طلاق کی نیت تھی تو اس کی بیوی پر ایک  بائنہ طلاق  واقع ہو گئی ہےاور اگر مذکورہ جملہ سے مہران کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔طلاق کی نیت نہ ہونے پر مہران کو اپنی بیوی کے سامنے قسم کھانی ہوگی،اگر مہران طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم نہیں کھاتا تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی ۔

نوٹ : بائنہ طلاق میں سابقہ نکاح ختم ہو جاتا ہے اور عورت کو عدت گزارنے کے بعد آگے نکاح کی اجازت ہوتی ہے البتہ سابقہ شوہر سے نیا نکاح کر کے صلح کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔

در مختار مع رد المحتار (4/521) میں ہے:

ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لايحتمل السب والرد.

ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

امداد الاحکام (2/610) میں ہے:

’’اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ وہ میری طرف سے آزاد ہے اس کنایہ کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب و مذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے‘‘

امداد المفتین (ص527)  اور فتاویٰ رحیمیہ (302/8) میں ہے:

’’زید کا قول ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں یہ کنایہ طلاق ہے۔ صرح العالمگیریہ والخلاصۃ حیث قال لم یبق بینی وبینک عمل أو شيئ وأمثال ذلك اور یہ کنایہ قسم ثانی میں داخل ہے جس کا حکم یہ ہے کہ نیت پر موقوف ہے اگر زید نے ان لفظوں سے طلاق کی نیت کی ہے جیسے کہ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی اور اگر نیت نہیں کی تو طلاق واقع نہیں ہوئی زید سے حلف لے کر دریافت کیا جاسکتا ہے‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved