• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تو اپنی بیوی کو چھوڑ دے کے جواب میں کہا چھوڑ دی

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

دوستوں کی محفل لگی ہوئی تھی، ایک دوست نے دوسرے سے کہا میں تمہاری خاطر کچھ بھی کر سکتا ہوں، تو دوسرے نے کہا تو اپنی بیوی چھوڑ دے، تو پہلے دوست نے اسی وقت فورا اسے یہ کہا اور اس کا ارادہ نہیں تھا (چھوڑ دی) اس صورت میں طلاق ہوگئی یا نہیں ہوئی اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے، لہذا عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ نیا نکاح کر کے میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں، آئندہ شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔

توجیہ:مذکورہ جملہ طلاق کے لئے صریح ہے لہذا بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔

مذکورہ جملے میں اگرچہ صراحتاً بیوی کی طرف طلاق کی نسبت موجود نہیں لیکن چونکہ مذکورہ جملہ سوال کے جواب میں بولا گیا ہے اور سوال میں بیوی کی طرف نسبت موجود ہے اور جواب سوال کے اعادہ کو متضمن ہوتا ہے لہذا مذکورہ جملے میں اضافت معنوی موجود ہے۔

فتاوی شامی(4/519)میں ہے:

فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال ” رهاكردم ” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.

محیط برھانی(4/433) میں ہے:

” واذا قالت مرا رها كن فقال رهاكردم فهو بمنزلة قوله رهاكردمت”

امداد الاحکام (2/448)میں ہے:

سوال: زید بیٹھا ہے، عمر نے کہا کہ "بیوی چھوڑ دی؟ زید نے جواب دیا "چھوڑ دی” اور کچھ نہیں کہا ان الفاظ کے کہنے کے بعد جو اوپر لکھے ہیں زید اپنی بیوی سے چھے مہینے تک بالکل نہیں ملا نہ بات چیت کی نہ صورت دیکھی، تو اس کے لیے کیا حکم ہے صاف تشریح کے ساتھ لکھئے۔

جواب:في الشامية: ولا يلزم كون الاضافة صريحة فى كلامه لما فى البحر ” ولو قال طالق فقيل له من عنيت، فقال امرأتى طلقت امرأته، أيضا و بعد أسطر” ويؤيده ما فى البحر لو قال امرأة طالق او قال طلقت امرأة ثلاثا و قال لم اعن امرأتي يصدق.

و يفهم منه انه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته لان العادة ان من له امرأة انما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها فقوله اني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لانه يحتمله كلامه.

پس اس کی عورت پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، اگر اب تک عدت ختم نہ ہوئی ہو تو رجوع کر سکتا ہے، اور اگر عدت ختم ہو چکی تو نکاح ہو سکتا ہے۔ اور اگر وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی عورت کے متعلق نہیں کہا تو اس سے نیت کا حال دریافت کرکے لکھا جاوے اس نے بیوی سے کونسی بیوی مراد لی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved