• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک طلاق دینا چاہتا ہے اور تین طلاق کے تحریر پر یہ گمان کرتے ہوئے دستخط کیے کہ ایک طلاق ہوگی

استفتاء

سوال کی نوعیت یہ ہے کہ میں مسمی*** بیٹی کا والد اور میری زوجہ اپنی بیٹی کے سسرال گئے۔ کیونکہ میری بیٹی  کی اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ کچھ ناچاقی ہوگئی تھی۔ میری بیٹی کے سسر نے ایک وکیل کو بلایا اور وکیل نے ایک اسٹام لکھا جس پر تین دفعہ لفظ طلاق تحریر کیا اور میرے داماد کو کہا کہ اس پر دستخط کرو۔

میرے داماد نے دستخط کرنے سے انکار کی اور میرے داماد نے اپنے والد محترم کو کہا کہ میں نے تین طلاق اکٹھی نہیں دینی اور اگر میں طلاق دینی ہی ہے  تو ایک طلاق دوں گا۔ تین قطعا نہیں دوں گا او نہ ہی میراتین طلاق دینے کا ارادہ ہے۔ لیکن میرے داماد نے اپنے والد صاحب کے اصرار پر اور وکیل صاحب کے دلائل دیے  اگر تین طلاق پر دستخط کروگےتو ایک طلاق ہی ہوگی۔ وکیل صاحب نے میرے داماد کو کہا کہ تم صرف دستخط کرو میں تم سے بہتر قانون جانتا ہوں تم میرے علم کو چیلنج نہ کرو اور ساتھ ہی وکیل صاحب نے میرے داماد کو دلیل دی کہ اس وقت آپ کی زوجہ امید سے ہے اور حمل ہوئے دوسرا ماہ شروع ہوچکا  ہے اور ایسی صورت میں پاکستانی قانون کے مطابق تین طلاق نہیں ہوتی کہ جب تک  بچے کی ولادت نہ ہو جائے اور ولادت کے بعد عرصہ تین ماہ سے پہلے رجوع کر سکتے ہیں لہذا تین طلاق منعقد نہیں ہوں گی اور ساتھ ہی میں یہ عرض کرتا چلوں کہ میرے داماد کا تین طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھ یہ بات میں حلفاً عرض کر رہا ہوں۔ میرے داماد نے ایک طلاق کی نیت سے ہی دستخط  کیے ہیں اس وقت مجلس میں موجود اللہ دتہ صاحب ، بھائی *** ہمسایہ صاحب، *** اور میں خود***بیٹی کا والد موجود تھا۔  (صورت حال کی نوعیت بتانے کے لیے یہ گواہ حاضر ہوسکتے ہیں)

ہم سب نے *** کو کہا کہ وکیل صاحب قانون ہم سےبہتر جانتے ہیں۔ ہم سب کی نیت بھی ایک طلاق کی ہی تھی۔ لیکن *** دستخط کرنے سےانکاری تھا۔ ہمارے اصرار پر*** نے ایک طلاق کی نیت سے دستخط کر دیے۔ کیونکہ وکیل صاحب نے *** کو کہا کہ تین طلاق نہیں ہیں۔ بلکہ ایک طلاق تصور کی جائے  گی اور ***بیٹی کا والد ہوں اس بات کو اللہ کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے میں نے قبر میں اکیلے اترنا ہے۔*** کو وکیل نے کہا تو *** نے دستخط کیے۔ لیکن*** کی نیت ایک کی ہی تھی تین کی نیت نہیں تھی۔ اب میرا داماد چار ماہ کے لیے تبلیغ جماعت میں چل رہا ہے اگر آپ کا حکم ہوتو اس کو بھی کوشش کر کے لاسکتا ہوں۔ وہ بھی رجوع کا خواہش مند ہے اور اگر آپ فرمائیں تو اس کی طرف سےحلفیہ  بیان لکھوا کے  لادوں اس کی نیت ایک طلاق کی ہی تھی۔ میری بیٹی بھی اپنے خاوند کے گھر جانے کی خواہش مند ہے۔ اگر آپ کا حکم ہو تو مجلس میں موجود گواہ تھے وہ بھی آپ کو حلفیہ بیان لکھ کر یا زبانی آپ کی مجلس میں دینے کے لیے تیار ہیں۔ کہ میرا داماد یہ کہتا ہے کہ جس طرح مفتیان کرام فرمائیں گے میں ویسے ہی کروں گا۔ آخر میں  میری آپ کی خدمت میں درخواست ہے کہ حل نکال دیں کہ دونوں خاندانوں میں محبت پیدا ہوجائے اور میری بیٹی کا گھر آباد ہوجائے اللہ پاک علمائے کرام کا سایہ آباد رکھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ خاوند صرف ایک ہی طلاق دینا چاہتا تھا بلکہ اسے آخر تک اس پر اصرار تھا، لیکن دوسرے لوگوں نے اسے غلط فہمی اور دھوکے میں مبتلا کیا تھا، اور خاوند نے طلاق کا لفظ زبان سے بولا بھی نہیں اور تحریر بھی نہیں کیا، بلکہ صرف دستخط کیے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved