• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"تم میری طرف سے آزاد ہو” طلاق صریح بائن ہے

استفتاء

میری شادی کو 15 سال  ہوگئے ہیں۔ میرے اور میرے شوہر کے درمیان شدید اختلاف شادی کے شروع سے ہی موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ بہت سے ایسے گناہوں میں ملوث ہیں جو میں بیان نہیں کرسکتی۔ میرے نان و نفقہ کے معاملے میں بھی انتہائی لا پرواہ رہے ہیں۔ اور میرا سارا خرچہ میرے والد ہی اٹھاتے ہیں ( کھانے پینے کے علاوہ )۔ہم دونوں میں مذہبی اختلاف بھی انتہا کا ہے۔ انہیں میرا پردہ اسلام پر چلنا  سخت ناپسند ہے۔ میں شادی کے بعد سے بارہا خلع کا مطالبہ کر چکی ہوں مگر انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ” تم اب  مر کر ہی یہاں سے جاؤں گی”۔ میرے والد بھی اسی سوچ کے ہیں۔ جہاں بیٹی بیاہ دی اب شوہر جیسا بھی ہو عورت گذارہ کرے۔ میں بہت حساس طبیعت کی مالک ہوں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں  ڈپریشن کی مریضہ بن گئی ہوں۔ اب تھوڑی سی بات بھی میرے حواس پر سوار ہوجاتی ہے اور مین گھنٹوں روتی رہتی ہوں۔ میں اپنے شوہر کو بار بار سمجھا چکی ہوں کہ اگر مجھے اپنی زوجیت یں رکھنا چاہتے ہیں تو میرے حقوق جو شریعت نے دیے ہیں ان کو ادا کرے۔ مگر وہ کہتے ہیں ” میں تمہارے مولویوں کی شریعت کو نہیں مانتا”۔ غرض 15 سال سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں۔ میوزک، رقص و سرور کے رسیا ہیں۔ عورتوں سے اختلاط کو برا نہیں جانتے۔ انشورنس،سود، کو پیسہ کمانے کے مختلف طریقے سمجھتے ہیں۔ نماز، زکوٰة، حج، روزہ کسی کی ادائیگی  نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے میرا ان سے خلع کا مطالبہ دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے۔

یہاں ایک سوال کی وجہ سے یہ تحریر لکھی ہے” کیا مجھے طلاق ہو چکی ہے”۔ تین مختلف واقعات مختلف سالوں میں ہوئے (جو مجھے اب یاد ہے ) وہ بیا ن کر رہی ہوں۔ میری رہنمائی فرمائیں کہیں ان الفاظ سےطلاق تو واقع نہیں ہوگئی۔

واقعہ نمبر 1: 1999ء میں میں اپنے شوہر کے ساتھ عمرہ کرنے گئی۔ تو مدینہ میں لڑائی ہوگئی میں نے اپنے شوہر سےطلاق کا مطالبہ کیا ( لڑائی طول اس لیے پکڑتی ہے کہ یہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اور ہٹ دھرمی سے مجھے اشتعال  دلاتے ہیں ) انہوں نے کہا” اگر تم قرآن پر ہاتھ رکھ دوگی تو میں تمہیں لاہور جا کر آزاد کر دوں گا” میں نے قرآن پر ہاتھ رکھ دیا۔ مگر بعد میں  ہم دونوں کی دوستی ہوگئی، اور میں نے ان سے معافی مانگ لی کہ آئندہ میں کبھی آپ سے طلاق کا مطالبہ  نہیں کروں گی۔

واقعہ نمبر2: دو چار سال پہلے  2007 میں  مجھے ۔۔۔ بیماری ہوگئی جس میں  میری ڈاکٹر نے کہا کہ اگر تم  بچہ کر لو گی تو بالکل ٹھیک ہو جاؤگی۔ ورنہ تمہارے ایسے خطرہ  بھی  ہے اور آپریشن سے رحم اور دوسرے اعضاء نکالنے پڑیں گے۔ میرے شوہر نے انکار کر دیا۔ مختصر یہ کہ ان کے انکار کی وجہ سے میں ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی مریض بن گئی۔جسمانی بیماری کا علاج چل رہا ہے ۔ آپریشن بھی کرواچکی ہوں، مگر ذہنی طور پر مجھے اپنے شوہر کے اس رویے نے متنفر کر دیا ہے ۔ انہوں نے بچہ اس لیے نہیں کیا کہ ان کو بیٹوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ دوسرا ان کا خیال تھا کہ اگر بچہ ہوا تو وہ کہیں اب نارمل نہ ہو۔ حالانکہ ڈاکٹروں نے بارہا سمجھایا کہ اس طرح کی بیماری سے بچہ پر اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم دونوں میں شدید لڑائی ہوئی ۔ میں نے ایس ایم ایس کیا مجھے آزاد کر دیں۔ انہوں نے آگے سے غصہ میں کہا” میری طرف  سے تم آج سے آزاد ہو” میں  نے دارالافتاء فون کیا انہوں نے کہا کہ طلاق رجعی  ہے رجوع کر سکتے یں ۔ ہم نے رجوع کر لیا۔

واقعہ نمبر 3: چند دن پہلے انہوں نے میرے ساتھ ( ہاتھ کا مذاق ) کیا جو یہ پندرہ سال سے کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اکثر میرے پٹھے کھچ جاتے ہیں۔ یا جسم پر نیل پر جاتے ہیں۔ میں نے انہیں بڑی دفعہ سمجھایا ہے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ ایسا مت کیا کریں۔ اس دفعہ انہوں نے مجھے زبردستی ریویلونگ چیئرپر بیٹھانے کی کوشش کی، تو میرے پاؤں پر سے  ویلز گذر گئے میں  نے رونا شروع کردیا۔ ڈپریشن میں میں کئی گھنٹے روتی رہی۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ابھی ان کا گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی، میں نے اپنے دو بیٹے 12 سال اور 11 سال کا ساتھ لی اور قریبی ہوٹل پارک پلازہ میں چلی گئی۔ دوپہر 4 بجے وہاں پہنچی۔7 بجے ڈرائیور نے بتایا کہ ” باجی کو میں ہوٹل چھوڑ کر آیا ہوں”۔یہ  15: 7 ہوٹل آئے اور غصے سے کہا تم نے آج میرے گھر کی دہلیز پار کی ہے۔ نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔ گھر چلو۔ میں نے اس وقت جانے سے انکار کر دیا مگر تھوڑی دیر بعد ہی میں نے انہیں بلا لیا اور گھر واپس آگئی مگر۔۔۔ سخت غصے میں رہے۔ کمرہ الگ کرلیا، کھانا کھانا چھوڑ دیا۔ میں نے انہیں بلایا اور کہا اگر آپ نے میرے ساتھ اب جسمانی تشدد کیا تو میں اس گھر میں نہیں رہوں گی۔ مگر انہوں  نے اپنی غلطی ماننے کی بجائے ہوٹل کے قدم کو انتہائی برا کہا اور مجھے اس کا نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہنے کے لیے کہا۔ میں نے کہا میں آپ کا گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہوں۔ انہوں نے کہا تم یہ  گھر تو مر کر چھوڑ سکتی ہوں۔ مگر اس گھر کے ایک  حصے میں تم رہوگی اور دوسرے میں میں۔ اور جو اگریمنٹ ہوا ، اس کی نقل ساتھ لگا رہی ہوں۔

میری راہنمائی فرمائیں کہ اب تک کوئی طلاق واقعہ تو نہیں ہوئی ؟اگر ہوئی ہے تو کہیں رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں؟ ڈپریشن کی وجہ سے ذہن پر افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ کتنی طلاقیں ہو چکی ہیں؟

2۔ اپنی ذہنی حالت کی وجہ سے اگر میں خلع کا مطالبہ کرتی ہوں تو کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟ کیونکہ میرے میں برداشت ختم ہوتی جارہی ہے، مگر میں اپنی دنیاکے لیے  عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتی۔ رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

” تم  میری طرف سے آزاد ہو” کا جملہ کنایہ ہے اور اس سے طلاق رجعی نہیں ہوتی بائنہ ہوتی ہے۔ جس میں نکاح  ٹوٹ جاتا ہے اور اگر دونوں اکٹھے رہنا چاہیں تو دوبارہ نکاح  پڑھوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے فی الحال آپ کا نکاح کالعدم ہے، اگر شوہر نہ مانے تو آپ عدالت سے خلع لے لیں۔

نوٹ: طلاق رجعی اس وقت ہوتی ہے جب شوہریوں کہے” میں نے تجھے آزاد کیا۔ فقط وا للہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved