• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جہاد کے نصوص و احادیث سے تبلیغ مراد لینا

استفتاء

السلام علیکم ۔ جو تبلیغی علماء  ان آیات و احادیث کو جو قتال کے ساتھ خاص ہیں۔ان آیات و احادیث میں بیان کئے گئے فضائل (یعنی جہاد بمعنی قتال کے فضائل) دیگر دینی جد و جہد اور کوشش پر ملیں گے ۔بعض علماء کا یہ کہنا کہ لفظ جہاد قتال کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی آیا ہے اس لئے قتال کا ثواب دیگر دینی کوششوں پر بھی ملے گا ۔

کیا فضائل کا مدار شرعی معنی پر ہے یا لغوی معنی پر جس طرح صلوت، زکوٰۃ، صوم اور حج وغیرہ بھی اپنے اصطلاحی معنی کے علاوہ لغوی اعتبار سے دیگر معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کیا کسی نے یہ نظریہ بنایا ؟ کہ نماز کا ثواب درود پر،زکوٰۃ کا ثواب صفائی پر،روزے کا ثواب تھوڑی دیر بھوکا رہنے پر،اور حج کا ثواب نیت و ارادہ پر ملے گا۔ اگر یہ نظریہ درست ہےکہ وہ آیتیں اور حدیثیں جو قتال کے ساتھ خاص ہیں انکا ثواب تبلیغی جماعت یا دیگر جد و جہد پر ملے گا تو صریح دلیل قرآن پاک سےیا حدیث پاک سے یا اجماع صحابہ سےیا مجتہدین سے پیش کیجیے گا (آپ کا شکر گزار رہونگا)۔مثال کے طور پر انفروا خفافا و ثقالا الخ قتال کے ساتھ خاص ہے اس آیت کو دیگر دینی جد وجہد پر فٹ کرنا تحریف معنوی ہے یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس سلسلے میں نصوص کی تین قسمیں ہیں:

1۔ جن میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا لفظ ہے۔

2۔ جن میں جہاد کا لفظ ہے۔

3۔ جن میں قتال کے الفاظ ہیں۔

’’فی سبیل اللہ‘‘ کے الفاظ جبکہ ان کا استعمال کسی خاص پس منظر میں نہ ہو، عام ہیں اور ہر کار خیر تحصیل علم، جہاد، دعوت، تبلیغ وغیرہ سب کو شامل ہیں خود نصوص میں اس کی صراحت ہے۔ ’’الادب المفرد‘‘ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول موجود ہے:

يا بني! إن سبيل الله كل عمل صالح. (رقم الحديث: 369)

2۔ جہاد کے لغوی معنیٰ مطلق کوشش کے ہیں مجاہدہ، جہد، اجتہاد وغیرہ اسی سے ماخوذ ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں جہاد سے مراد وہ خاص اور مرتب عمل ہے جس کی ابتداء کفار کو دعوت اسلام سے ہوتی ہے اور انتہاء قتال پر ہوتی ہے۔ یا کفار کی جانب سے حملے کی صورت میں دفاع کے لیے جاتا ہے۔

مگر نصوص میں جہاں اس سے مذکورہ خاص عمل مراد ہے اس بات کا تعین لفظی قرائن سے ہوتا ہے وہیں  اس سے ایک عام معنیٰ بھی مراد ہے  جیسے ’’وجاهدوا في الله حق جهاد ‘‘ وغیرہ ہے۔

اور ’’يا أيها النبي جاهد الكفار و المنافقين و اغلظ عليهم‘‘ اور ’’المجاهد من جاهد نفسه وغيره.‘‘ ’’رجعنا من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر‘‘ وغیرہ میں ہے کیونکہ ان نصوص میں خاص عمل مراد لینا ممکن نہیں۔

3۔ البتہ قتال کی نصوص کا مدلول مطابقی قتال ہی ہے جو جہاد بالمعنیٰ الاصطلاحی کے ساتھ خاص ہے۔

ان تین قسم کی نصوص میں سے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی نصوص جب ہر کارِ خیر کے لیے عام ہیں تو ان کو تبلیغ کے لیے استعمال کرنے میں بھی کوئی اشکال نہیں۔ اسی طرح جہاد کی مطلق نصوص کو بھی استعمال کرنا روا ہے۔ اور حضرات صوفیاء سے بھی یہ بلا نکیر منقول ہے کہ وہ جہاد سے مراد جہاد بالنفس لیتے ہیں۔ باقی رہی جہاد سے مراد قتال والی نصوص یا خود قتال کی نصوص ان کو تبلیغ یا کسی بھی دوسرے دینی مقصد کے لیے استعمال کرنا اگر تو یہ بطور دلالتِ مطابقی یا تفسیر کے ہو تو یہ درست نہیں بلکہ نص کا اس کے مدلول سے ہٹ کر استعمال ہے جسے تحریف کہتے ہیں۔ اور اگر یہ بطور استیناس کے ہو یا اشارہ کی قبیل سے ہوتو اس کی گنجائش ہے۔ حضرات صوفیاء نے بھی متعدد نصوص کو اس طریقے سے استعمال کیا ہے۔ مثلاً  ((اذهب إلى فرعون إنه طغى)) میں  فرعون سے مراد نفس لیا۔ مگر یہ لینا بطور اشارہ کے ہے تفسیر نہیں ہے ورنہ تو یہ تحریف اور باطنیت ہو گی

پھر چونکہ یہ معاملہ ذرا نازک ہے اس لیے کسی نے ایسا کیا ہو تو اس کی تاویل کی جائے گی۔ از خود ابتداءً ایسا کرنے سے بچنا چاہیے بالخصوص ایسی تحریک کے بیانات میں جس کے مخاطب صرف خواص نہیں کہ جو بات کو اپنے محل تک محدود رکھیں بلکہ اکثر عوام ہیں جو بات کو حدود سے متجاوز کر دیتے ہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved