• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق بائن کے بعد عورت آزاد ہے کہیں اور نکاح کرنا چاہیے توکرسکتی ہے

استفتاء

ہم نے آپ حضرات کے دارالافتاء سے طلاق سے متعلق ایک فتویٰ لیا تھا جس کا نمبر 1431 ہے اور جس کی کاپی اس سوال کے ساتھ لف ہے۔ اس فتوے میں آپ حضرات نے یہ لکھا ہے کہ ایک طلاق بائن ہوگئی ہے۔ میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اس فتوے کی رو سے کیا میاں بیوی کو دوبارہ  نکاح کر کے اکٹھا رہنا ضروری ہے یا بیوی آزاد ہے اور بیوی کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح نہ کرے اور کسی اور جگہ نکاح  کر لے؟ نیز کیا دوسری صورت میں سابقہ شوہر کے ذمے پہلا مہر ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ اسی طرح نکاح نہ کرنے کی صورت میں شوہر کے ذمے جہیز کی واپسی بنتی ہے۔ یا نہیں؟ نیز سابقہ شوہر سے ایک لڑکا بھی ہے جس کی عمر تقریباً ڈیڑھ ماہ ہے اس  بچے کا خرچہ کس کے ذمے ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایک طلاق بائن کی صورت میں عورت کو اختیار ہوتا ہے چاہے تو طلاق دینے والے شوہر سے نکاح کرے چاہے کسی اور مرد سے کرے اور چاہے کسی سے نہ کرے۔ مہر چونکہ عورت کا حق ہے اس لیے شوہر کو ہر حالت میں ادا کرنا ضروری ہے۔ اس لیے پچھلا مہر واجب الادا ہے۔

و إنما يتأكد لزومه ( أي المهر ) عند وطء أو خلوة صحت من الزوج أو موت أحدهما. ( شامی، 2/ 358 )

جہیز کا سامان عورت کی ملکیت ہوتا ہے ۔ اگر عورت طلاق دینے والے شوہر سے نکاح نہ کرے تو جہیز واپس لے سکتی ہے۔

قال الشيخ الإمام الأجل الشهيد المختار للفتوى أن يحكم بكون الجهاز ملكاً لا عارية لأنه الظاهر الغالب إلا في بلدة جرت العادة بدفع الكل عارية فالقول للأب. (شامی، 1/ 504 )

بچے کا خرچہ باپ کے ذمہ ہوگا۔

نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد. كذا في الجوهرة. ( عالمگیری: 1/ 560 )

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved