• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کاغذ پر دستخط کر کےطلاق کی تحریر لکھوانا اور بعد میں اس کو پڑھنا

استفتاء

میرے خاوند نے 30 سال بعد ایک عورت سے شادی کر لی ہے جس کے تین بچے ہیں۔ جس  سے میری چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔  خاوند نے ہمیں پہلے نہیں بتایا تھا بلکہ شادی کے بعد بتایا تو ان کی ماں بہت ناراض ہوئی اور طلاق دینے کو کہا۔ خاوند نے ماں کے سامنے کہا کہ ٹھیک ہے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کو طلاق دے دوں گا اور پھر کاغذ پر دستخط کر کے دیے اور کہا کہ جو چاہے وہ لکھ کر بھیج دو۔ ہم نے کورٹ کے ذریعے طلاق بھیج دی تو آٹھ دس دن بعد کہنے لگے کہ اس پر دو گواہوں کے دستخط نہیں تھے۔ اس لیے طلاق نہیں ہوئی۔ میں نے جامعہ اشرفیہ کے عالم سے فتویٰ لے لیا ہے۔

اس کے پندرہ دن بعد کہنے لگے آپ لوگ اس پر دو گواہوں کے دستخط کر کے دوبارہ بھیج دو، میری طرف سے اجازت ہے۔ دوسری طرف اس عورت کو کسی اور جگہ کرایہ پر مکان لے دیا۔ جب کاغذ گئے تو وہ وہاں سے جاچکی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کاغذ ریسیو کرنے پر طلاق ہوتی ہے یا جب مرد رضامندی سے لکھے اور سائن کر دے اس وقت طلاق ہوتی ہے؟

وضاحت: طلاق نامہ کی عبارت رف لکھ کر خاوند کو دکھائی گئی تو عبارت پڑھ کر اس میں تبدیلی کی اور کہا کہ اسے نیٹ کر لو۔ پھر بعد میں نیٹ مضمون بھی بیٹ سٹیمپ پیپر خرید کر لایا اور وکیل سےلکھوا کر طلاق بھجوا دی تو بعد میں پوچھا کہ لاؤ دکھاؤ کیا بھیجا ہے اور سارا طلاق نامہ کی کاپی پڑھی اور تسلیم کیا کہ طلاق  ہے لیکن بعد میں انکار کرنا شروع کر دیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب مرد نے اپنی مرضی سے دستخط کر دیے تھے اور کہا تھا کہ جو چاہے مضمون لکھ دو ،اور رف لکھا ہوا مضمون خود پڑھا اور صاف لکھوایا۔ پھر طلاق نامہ مکمل ہونے کے بعد  اس کو دوبارہ پڑھا۔ اس سے لکھتے ہی طلاق ہوگئی۔ طلاق پڑنے کے لیے مرد کا بھیجنا اور عورت کا  وصول کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں پڑگئیں۔ صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved