• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میں آپ کو امانت صحیح سلامت سونپ رہا ہوں، میں اسے نہیں رکھوں گا، میں نے تمہیں اپنی زندگی میں نہیں رکھنا

استفتاء

میں*** کی بیوی بوجہ گھریلو ناچاقی گھر سے چلی گئی تھی جب ملی تو اسی رات میں نے اپنی بیوی کے والد صاحب کو بلوایا کہ آپ اپنی بیٹی کو لے جائیں۔ میری بیوی حاملہ تھی اور اب بھی حاملہ ہے۔ میں نے اپنے سسر کو یہ الفاظ ادا کیے ” کہ میری بیٹی آپ زندہ لے کے گئے ( میری بیٹی فوت ہوگئی تھی اس کے بارے میں کہا تھا) پھر وہ زندہ نہ رہی۔ میں آپ کو آپ کی امانت صحیح سلامت سونپ رہا ہوں اسے کچھ نہیں کہا نہ کیا آپ اس سے پوچھ سکتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں اس کو نہیں رکھوں گا (کیونکہ یہ گھر سے اکیلی نکلی تھی) آپ کا سامان میرے پاس امانت ہے۔ جب چاہو لے جائیں۔”

میں نے اپنی بیوی کو کہا ” کہ میں نے تمہیں اپنی زندگی میں نہیں رکھنا” اور پھر میں ایک ماہ پندرہ دن بعد اپنے سسرال صلح کی نیت سے آیا کیونکہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔ میری ان سے صلح ہوگئی۔ کیا میں اپنی بیوی کو اپنے گھر لے جاسکتا ہوں؟ یا پھر شریعت کا اس بارے میں کچھ اور فیصلہ ہے۔ اور میں غیر مقلد ہوں ( اہل حدیث) اور میرے سسرال حنفی دیوبندی ہیں۔ اور ہر مسلک اور مکتب فکر بشمول شیعہ مسلک سے تعلق بھی رکھتا ہوں۔ میں ہر شیعہ، سنی، دیوبندی کسی بھی مسلک کو کافر نہیں مانتا۔

نوٹ: مذکورہ الفاظ نارمل حالت میں بغیر کسی غصہ یا لڑائی جھگڑے کے کہے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر کا یہ کہنا کہ ” میں آپ کی امانت صحیح سلامت سونپ رہا ہوں”، ” میں اسے نہیں رکھوں گا” یا بیوی کو کہنا کہ ” میں نے تمہیں اپنی زندگی میں نہیں رکھنا” سارے الفاظ صریح طلاق کے نہیں بلکہ کنایہ ہیں جن سے نارمل حالت میں اگر شوہر طلاق دینے کی نیت کرے تو طلاق پڑتی ہے ورنہ نہیں پڑتی۔ چونکہ شوہر کا کہنا ہے کہ اس کی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی لہذا کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved