• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

آپ کو میرے لیے یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ اپنا بوریہ بستر اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے

استفتاء

مودبانہ عرض ہے کہ میں ایک عجیب مسئلہ سے دو چار ہوں اس کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ تین سال قبل میری شادی حافظ عالم مفتی***سے ان کوائف کی بنیاد پر ہوئی:

۱۔ حافظ ہیں،عالم ہیں، مفتی ہیں۔

۲۔ ایک سال جماعت میں لگا ہوا ہے۔

۳۔ سالانہ چلہ کی بھی مکمل ترتیب ہے۔

۴۔ سنت کے مطابق سادگی سے شادی کرنا ہوگی۔

۵۔ رائیونڈ میں ان کے استاد محترم مولانا*** صاحب نکاح پڑھائیں گے۔ ان کے بیٹے مولانا*** ان کے کلاس فیلو تھے۔ ان کی دوستی کی بنیاد پر ہمارا نکاح رائیونڈ میں ہوا۔

ان کے چار بہنیں اور ساتھ بھائی ہیں۔ بہنیں شادی شدہ ہیں اور پانچ بھائی کنوارے ہیں۔ اور والدہ فوت ہوچکی ہیں اور والد صاحب حیات ہیں۔ شادی کے دو تین ماہ بعد انہوں نے مجھ سے عجیب عجیب سی باتیں کی جن کو میں اس وقت سمجھی جب انہوں نے اس پر عمل کیا۔ وہ باتیں یہ ہیں:

۱۔ اگر بچہ ہوگیا تو میں تمہارے پاس نہیں آسکوں گا، مجھے تم سے نفرت ہونے لگے گی۔

۲۔ اگر آپ کے پاؤں کی یہ چوٹ صحیح نہ ہوئی اور اس کا نشان بھی رہ گیا تو میں آپ کے ابو سے کہوں گا کہ اس کو آکر لے جائیں اور پھر اپنے پاس ہی رکھیں۔

۳۔ تمہارے جسم پر بال ہیں۔

۴۔ تمہارے چہرے پر دانے کیوں نکلے۔ حالانکہ وہ صحیح بھی ہوگئے۔

۵۔ بچی کی پیدائش کے بعد آج تک وہ دو سال کی ہوگئی ہے وہ میرے پاس ایک مرتبہ بھی نہیں آئے۔ اس کے کے بعد ایک سال بعد میری بیٹی ہوئی جس کی وجہ سے میں کچھ دیر امی کے گھر رہی۔ پھر جب میں واپس گئی تو ان کا رویہ میرے ساتھ بہت ہتک آمیز تھا۔ کہ اگر ان کو مجھ سے کوئی بات کرنی ہوتی تو کرلیتے مگر میں ان سے کوئی بات کروں تو وہ مجھے جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ اور اگر میں دو تین بار پوچھوں تو منہ دوسری طرف کر کے پیٹھ میری طرف کرکے جواب دیتے تھے۔ اگر میں اس کے پاس بیٹھ جاؤں یا لیٹ جاؤں تو کہتے تھے کہ مجھ سے دور ہٹ جاؤ اور بچی کو میرے ساتھ سلایا کرو، میں ایسا ہی کرنے لگ گئی۔ اس کے بعد میں یہ دیکھنے لگی کہ وہ ساری رات موبائل پر میسج کرتے ہیں اور کبھی اٹھ کر باہر جاکر صحن میں رات کو ایک بجے کے بعد بات چیت بھی کرتے ہیں۔ لیکن میں نے اس نے اس چیز کے بارے میں بالکل نہیں پوچھا۔ اس وجہ سے کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کوئی غلط کام کرسکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ رات کو گھر سے جانے لگ گئے اور ساری رات گذارنے کے بعد صبح واپس آتے اور مجھے بالکل نہیں بتاتے تھے کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور کب آؤں گا۔ اگر میں پوچھوں تو اکثر یہی کہتے کہ میں حفیظ سینٹر کی مسجد میں ہوں یا بلال مسجد چونگھ امرسدھو میں ہوں۔ وہاں میں اپنے دوستوں کے پاس ہوتا ہوں اور جب میں نے ان سے کہا کہ آپ رات کو نہ جایا کریں، میں سارا دن آپ اور آپ کے گھر والوں کی خدمت کرتی ہوں اور بچی کو سنبھالتی ہوں۔ آپ پلیز مجھے بھی تھوڑا وقت دے دیا کریں، کیونکہ اس طرح میں ذہنی ٹینشن کا شکار ہوجاتی ہوں۔ لیکن انہوں نے بالکل کوئی توجہ نہ کی اور بلکہ آہستہ آہستہ مجھ سے بات چیت بالکل بند کردی اور گھر کھانا، پینا بھی چھوڑ دیا اور اگر کبھی گھر میں کھاتے بھی تھے تو کہتے تھے کہ اس وقت میرا دل دوستوں کے ساتھ کھانے کو کر رہا ہے۔ وہ پریس پرینٹنگ کا بزنس کرتے تھے۔ ان کے ایک بھائی ان کے ساتھ تھے۔ وہ رات کو نو بجے آجاتے تھے اور یہ رات کو دو، تین بجے آتے تھے۔ پھر انہوں نے اس بزنس کو ایک دم ختم کردیا اور کراچی کے ایک مدرسے جس کا نام مکتب تعلیم القران ہے وہاں جاب کے لیے چلے گئے اور سب کو بتا دیا کہ میں وہاں جاب کے سلسلے میں جا رہا ہوں اور مجھ سے کہا کہ تم اس دوران اسی  گھر میں رہو گی، میں چار، پانچ ماہ بعد آؤں گا اور پھر آپ کو بھی ساتھ لے کر چلا جاؤں گا کراچی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ لیکن جانے سے کچھ پہلے بہت غصے میں مجھ سے بات چیت کرتے رہے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو میری جو بات بری لگتی ہے وہ مجھے بتا دیں میں آپ کے لیے تو یہاں رہتی ہوں۔ تو انہوں نے فوراً کہا کہ’’ آپ کو میرے لیے یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنا بوریہ بستر اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے ‘‘۔ ان الفاظ کے کہنے کے وقت مجھے حمل بھی نہیں تھا۔ اور اس کے بعد تین ماہواریاں بھی گذر چکی تھیں۔ اس کے بعد چھ ماہ بعد وہ کراچی سے لوٹ آئے اور کہنے لگے کہ وہاں کے حالات بہت خراب ہیں۔ اب میں یہیں کوئی کام کرلوں گا۔ اور میں ان کی بیوی ہوں اور مجھے نہیں پتا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں۔ بس میں دیکھتی ہوں کہ وہ عصر کے بعد گھر سے جاتے ہیں اور صبح آکر سو جاتے ہیں۔ اور پھر ظہر کی نماز قضاء کر کے اٹھتے ہیں اور میں نے ان کے کپڑے اور ان کے لیے کھانا پہلے سے تیار کیا ہوتا ہے وہ اٹھ کر نہا کر کپڑے پہن کر بغیر کھائے چلے جاتے ہیں۔ آٹھ ماہ مستقل ان کی یہ روٹین رہی۔ پھر میں نے ان کے موبائل میں ایک لڑکی کے میسج پڑھے جس سے انہوں نے ملاقات کا ٹائم وغیرہ طے کیا ہوا تھا۔ پھر میں الرٹ رہنے لگی۔ پھر میں نے ایک دن ان کو اس لڑکی کے ساتھ آمنے سامنے انٹرنیٹ پر بات چیت کرتے ہوئے پکڑ لیا۔ اور اس وقت رات کو تین بجے کا ٹائم تھا۔ اس رات وہ گھر پر ہی تھے۔ مگر دوسرے کمرے میں جاکر بات کر رہے تھے۔ ان کے سب گھر والے سوئے ہوئے تھے۔ میں نے کوئی واویلا نہیں مچایا اور آرام سے ان کو اپنے ساتھ کمرے میں لائی اور بہت نرمی سے ان سے بات چیت کی کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ آپ خود بھی جانتے ہیں اللہ نے آپ کو کتنی نعمتیں دی ہیں۔ دین کا علم ، قران پاک، رزق، اولاد وغیرہ تو پھر اسی اللہ کی ناشکری پر کیوں اترتے ہیں۔ تو اس پر انہوں کہا کہ مجھے زیادہ شریعت نہ سمجھاؤ، مجھے معلوم ہے جو کچھ بھی کر رہا ہوں وہ بالکل ٹھیک ہے۔ میری طرف سے  بے شک تم بھی ایسا کر لو۔ تم بھی لڑکے تلاش کرلو میری طرف سے تمہیں اجازت ہے۔ میں یہ سن کر بیمار ہوگئی اور امی کے گھر چلی گئی اور امی کو تفصیل سے بتایا بھی نہیں۔ بیس دن میں امی کے گھر رہی۔ انہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ میر امی نے مجھ سے پوچھا بھی مگر میں نے ان کو ان کے کردار کے بارے میں نہ بتایا۔ پتا نہیں میں نے ایسا کیوں کیا؟ بیس دن بعد جبکہ ان کی بہن نے u.k جانا تھا انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ میری بہن نے u.k جانا ہے۔ اور آپ ابھی تک امی کے گھر ہی ہو آپ میرے گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی۔ میرے والد کو نہیں پوچھتی، میرے بھائیوں کو نہیں پوچھتی، انسان کو اتنا بد اخلاق نہیں ہونا چاہیے۔ اس بات پر میرے ان سے بحث ہوگئی اور میں نے کہا ٹھیک ہے مجھے آپ کے گھر والوں کو پوچھنا چاہیے اور میں پوچھتی بھی ہوں مگر آپ کا جو رویہ میرے ساتھ ہے وہ اخلاق کا کونسا درجہ ہے، نہ مجھے خرچہ دیتے ہیں، نہ میرے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا وغیرہ ہے، بیمار ہو جاؤں تو ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے کر جاتے۔ اور میرا اور میری بچی کا تمام خرچہ میرے والدین ہی برداشت کرتے ہیں۔ اور میں آپ کے گھر میں صرف آپ کے اور آپ کے گھر والوں کے کام کرتی ہوں اور پھر بھی آپ یہی کہتے ہیں کہ فلاں کو نہیں پوچھتی، فلاں کو نہیں پوچھتی۔ تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ میں نے آپ کو خدمت کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور میں جو کچھ چیٹنگ کرتا ہوں رات کو دیر سے آتا ہوں وہ سب آپ کی بد اخلاقی کی وجہ ہے۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو صحیح نہ کیا تو میں اور زیادہ یہ کام کروں گا۔ پھر بھی میں نے انسے یہ کہا کہ آپ کس طرح کی خدمت مجھ سے کروانا چاہتے ہیں۔ ایک مرتبہ مجھے بتا دیں میں اسی طرح کرلوں گی۔ تو انہوں نے کہا کہ میرا جو بھائی جس ٹائم اٹھے جس ٹائم گھر آئے تم اس کے آگے کھانا پیش کرو اور جب وہ کھا چکیں تو ان کے برتن اٹھا کر لے کر جاؤ اور ان کو فوراً دھوکر رکھو۔ اور میرے والد صاحب کی ہر طرح کی خدمت آپ کی ذمہ داری ہے۔ اور میری بہنیں جب بھی آئیں تو ان کے پاس جاکر بیٹھا کرو۔ اس پر میں میں نے ان کو یہ کہا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ میں آپ کے بھائیوں سے شرعی پردہ کرتی ہوں اور میں نے کے لیے کھانا بنا کر کچن میں رکھتی ہوں وہ وہاں سے کھا لیتے ہیں اور بعد میں جب برتن جمع ہوجاتے ہیں تو پھر میں دھو لیتی ہوں۔ ان کے آگے کھانا رکھوں یہ میرے لیے مشکل ہے۔ کوئی ایک آدھا بھائی نہیں پانچ بھائی کنوارے ہیں۔ سب کے ٹائم الگ الگ ہیں۔ آپ کے والد صاحب کی میں پوری خدمت کرتی ہوں۔ اور آپ کی بہنوں سے بھی میرا برتاؤ اچھا ہے لیکن آپ کو معلوم اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ آپ نے گھر میں کسی قسم کا کوئی عمل دخل رکھا ہوا ہی نہیں ہے۔ آپ کچھ عرصہ گھر پر توجہ دے کر دیکھیں آپ کی تمام ذہنی الجھنیں دور ہو جائیں گی۔ خیر پھر بھی میں اگلے دن بہن کو ملنے چلی بھی گئی اور پھر میں اپنے گھر میں بھی رہنے لگی۔ ایک رات کو گیارہ بجے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے روٹی پکائی سب کے لیے تو میں نے کہا کہ آج نہیں پکائی، بچی بہت بیمار ہے۔ انہوں نے روٹی بازار سے منگوائی ہے اور میں نے بھی ان سے کہہ کر اپنے لیے بھی منگوالی ہے۔ تو انہوں نے غصہ میں آکر کہا کہ اگر میرے بھائیوں کے لیے روٹی نہیں پکا سکتی تو اپنا بوریہ بستر اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے۔ میں نے ان کے ابوجی کو اسی وقت یہ بات بتائی۔ والد صاحب نے ان کو بہت ڈانٹا اور کہا کہ تم نے آئندہ ایسی بات کی تو میں تم سے بہت سختی سے پیش آؤں گا۔ یہ کوئی بات ہے کہ روٹی نہیں پکائی تو گھر سے نکل جاؤ۔ اس پر ان کو مزید غصہ آیا کہ تم نے ابوجی کو کیوں بتایا اور چھ ماہ مجھ سے بات چیت نہیں کی اور بچی کو بھی دیکھا تک نہیں اور اپنی روٹین میں رات کو جاتے رہے اور دن میں سوتے رہے اور کام بھی سارے چھوڑ دیے اور پھر میں نے تنگ آکر امی کو سب کچھ بتایا اور ان کے یہاں آگئی پھر ڈھائی ماہ میں ان کے گھر رہی کہ شاید ان کو کوئی احساس ہو جائے مگر انہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا حتی کہ چھوٹی عید پر فون نہیں کیا۔ اس دوران ان کو میسج میں سلام بھیجتی رہی اور انہوں نے میرے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ پھر ڈھائی ماہ بعد بعد ایک فون کر کے مجھ سے پوچھا کہ کب ارادہ ہے آنے کا؟ میں نے کہا جب آپ کہیں گے تو انہوں نے کہا یعنی آپ کا کوئی ارادہ نہیں آنے کا۔ میں نے کہا ایسی بات نہیں ہے میں تو پہلے بھی آپ ہی کے پاس تھی آپ مجھ سے بات بھی نہیں کرتے تھے، اب اگر آپ کہیں گے تو میں آجاؤں گی۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب اچھے طریقے سے رہنے کا ارادہ ہو تو بتا دینا۔ میں نے کہا کہ اچھا طریقہ کیا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تمہیں معلوم ہے۔ میں کچھ نہیں بتاؤں گا۔ پھر فون بند کردیا۔ پھر چند دن بعد دوبارہ فون کیا اور پوچھا کہ کیا کرنا چاہتی ہو۔ میں نے کہا میں یہ چاہتی ہوں ہم پیار محبت سے رہیں۔ اپنا دکھ درد ایک دوسرے سے شیئر کریں، مل جل کر زندگی گذاریں۔ تو ان کا لہجہ کچھ نرم ہوگیا اور وہ مجھے کہنے لگے کہ تم آجاؤ  انشاء اللہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ میں بہت خوش ہوئی اور ان کی  باتوں میں آگئی اور پھر وہ مجھے لینے بھی آئے اور اس وقت میرے والدین نے ان سے بات چیت بھی کرنی چاہی مگر میں نے ان کو یہ کہہ دیا کہ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اب ہم انشاء اللہ اچھے طریقے سے رہیں گے اور جو کچھ ہوچکا سب بھلا دیتے ہیں۔ وہ خاموش ہوگئے اور میرے شوہر مجھے لینے آئے تو میں ان کے ساتھ چلی گئی۔ رمضان المبارک کے بیس دن بعد میں گئی اور عید الاضحی تک وہیں رہی، لیکن اس دوران ان کا سلوک میرے ساتھ بالکل پہلے والا ہی تھا۔ عید الاضحی سے دو دن پہلے انہوں نے مجھ سے کہا کہ عید کے دوسرے دن ہم امی کی طرف چلیں گے مگر صرف ایک گھنٹے کے لیے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی، عید کا پورا دن اور پوری رات میں گھر میں آنے والے مہمانوں کی ضیافت کرتی رہی اور روتی رہی کیونکہ انہوں نے مجھ سے اس دن بات بھی نہیں کی اور شام چار بجے گھر سے گئے اور رات دو بجے گھر آئے اور تمام عیدوں پر ان کا یہی معمول رہا ہے۔ مگر مجھے یہ دکھ تھا کہ اب تو انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ بہرحال عید کے دوسرے دن جب انہوں نے مجھ سے کہا کہ چلو تیاری کرو امی کی طرف چلتے ہیں اور جب میں تیار ہوگئی تو کہنے لگے کہ اگر آپ نے رہنے کے لیے نہیں جانا تو پھر وہاں جانے کا کیا فائدہ۔ میں چپ ہوگئی۔ اسی دوران میری امی کا فون آیا کہ آپ کب نکلو گے، میں نے کہا ان کے سامنے کہ میرا آنا فائنل نہیں ہے۔ تو میرے شوہر نے فوراً کہا کہ نہیں ابھی نکلتے ہیں اور مجھ سے غصے ہوئے کہ تم نے یہ کیوں کہا امی کو کہ میرا آنا فائنل نہیں ہے۔ خیر وہ بہت غصے میں مجھے لے کر نکلے اور امی کے گھر ٹھیک ایک گھنٹہ بیٹھے اور اسی دوران ہم نے کھانا بھی کھایا اور وہاں سے واپس آگئے۔ اللہ کی طرف سے تیسرے دن میرے امی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی کہ کمر میں بل پڑنے کی وجہ سے چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا تو انہوں نے فون کر کے مجھے بتایا تو میرے شوہر بھی اس وقت میرے پاس تھے جیسے ہی انہوں نے سنا فوراً کہا کہ تم ابھی امی کے پاس چلی جاؤ۔ میں تیاری کرنے لگ گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ چھوٹا بیگ کیوں بنا رہی ہو بڑا والا بیگ تیار کرو۔ میں نے کہا وہ موٹر سائیکل پر رکھنا مشکل ہوگا، کہنے لگے نہیں مشکل وہی تیار کرو۔ میں نے بڑا بیگ تیار کرلیا تو جب گھر سے نکلنے لگے تو پہلے تو انہوں نے کہا کہ مجھے تولگ رہا ہے کہ آپ نے اب نہیں آنا میرے خیال میں تو آپ مستقل جارہی ہیں۔ آپ نے اتنا بڑا بیگ ایسے ہی تو تیار نہیں کیا نا؟ میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کیوں اس طرح کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے تو آپ کے پانچ سوٹ استری کیے اور سالن بھی پکا کر فریج میں رکھا تاکہ اگر مجھے تین چار دن لگ بھی جائیں تو آپ کو مشکل نہ ہو۔ امی کی طبیعت جونہی ٹھیک ہوئی میں فوراً آجاؤ گی۔ پھر انہوں نے کہا میں تمہیں موٹر سائیکل پر نہیں بٹھانا چاہتا میں رکشتہ لے آتا ہوں۔ خیر میں رکشے میں بیٹھ گئی اور وہ میرے ساتھ امی کے گھر تک مجھے چھوڑنے آئے۔ تین دن بعد جب میں نے ان کو فون کیا کہ آج میں نے آنا ہے تو آپ مجھے لینے آجائیں ( وہ صبح سے عصر تک گھر پر ہی ہوتے ہیں) تو انہوں نے کہا کہ میرا تو آپ کو لینے کے لیے آنا بالکل ناممکن ہے اور وہ سخت غصے میں آئے۔ یہ سن کر کہ میں نے آنا ہے۔ پھر یہ کہا کہ اگر دل کرتا ہے تو خود ہی آجاؤ ورنہ تمہاری مرضی۔ میں نے پوچھا کیا آپ کا دل نہیں کرتا کہ میں آجاؤں تو انہوں نے کہا سخت غصے میں کہ میرا دل تو آپ طرف سے بالکل مرچکا ہے۔ اور میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ آپ ہمیشہ کے لیے جاچکی ہو۔ میرے تو ذہن سے بھی آپ کا خیال مٹ چکا ہے۔ اب آپ نہیں آؤ گی۔ پھر شام کو فون پر فون کرنے لگے تو میں نے ان کا فون نہیں اٹھایا جب بہت زیادہ فون کرنے لگے تو میں نے اٹھا لیا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی تو میں نے کہا آپ کی صبح والی باتوں کا مطلب سوچ رہی تھی اور کہنے لگے اچھا پھر جلدی بتاؤ کیا سوچا ہے تاکہ میں بھی کوئی فیصلہ کروں جلدی سے۔ میں نے کہا کہ میں سوچ رہی ہوں اور جب سوچ چکوں گی پھر انشاء اللہ آپ کو بتاؤں گی۔ تو کہنے لگے کہ آپ پھر آنا تو نہیں ہے نا آج یا بعد میں۔ میں نے کہا آج تو میں نہیں آؤں گی بعد میں آؤں گی۔ تو کہتے ہیں کہ ہفتے کو ( یعنی دو دن بعد) اپنے بھائی اور ابو کو کہنا کہ میرے جنازے پر آجائیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کہہ دوں گی۔ پھر رات کو عشاء کے بعد وہ امی کے گھر آئے اور جو کچھ فون پر کہا تھا اس کے بارے میں میرے امی کے سامنے قران پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں نے یہ بات نہیں کی۔ خیر وہ تھوڑی دیر شور مچا کہ مجھے ڈانٹ کر چلے گئے کہ تم نے اپنے والدین کو جو کچھ بتایا وہ جھوٹ ہے۔ ہفتہ کو میں اور میرے والدین ان کے گھر گئے اور ان کے والد صاحب کو ساری باتیں ان کے سامنے بتائیں اور ان کے سامنے وہ یہ مان گئے کہ وہاں میں نے یہ سب کہا ہے اور میرے والدین سے مخاطب ہو کر بہت رعب سے پوچھا کہ پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے میری ان باتوں پر۔ تو میری والدہ نے یہ جواب دیا کہ بات آپ نے کی ہے لہذا آپ ہی بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ نے کیا فیصلہ کر کے یہ بات کی ہے تو اس پر وہ خاموش ہوگئے اور ان کے والد صاحب نہایت غمگین ہوگئے اور کہنے لگے کہ اس بچی کو آپ میری ذمہ داری پر یہاں چھوڑ جائیں۔ میں خود اس کو خرچہ دوں گا۔ اس کا پورا خیال رکھوں گا۔ انہوں نے کافی مرتبہ میرے والد صاحب کو یہی بات کہی اور میرے والد صاحب نے کہا کہ ہم اس بچی کو اس وقت یہاں چھوڑ سکتے ہیں جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی ہے وہ اس بات کی ذمہ داری اٹھائے ۔ اور ہم اس کو اپنے ساتھ ہی لے کر جانا چاہتے ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے دل میں اس کے لیے کیا ہے؟ ان کے والد صاحب نے بار بار مجھے چھوڑ کر جانے کا اصرار کرتے رہے اور میرے شوہر نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ اس کو چھوڑ جائیں۔ اور پھر ان کے والد صاحب خاموش ہوگئے تو میرے ابو نے میرے شوہر سے پوچھا کہ اب اجازت ہے یعنی اس کو ساتھ لے جانے کی تو انہوں نے کہا جب میرے والد نے اجازت دے دی تو میری بھی اجازت ہی سمجھئے۔ اس کے بعد سے آج 25 دن ہونے کو ہیں نہ کوئی فون کیا نہ بچی کا حال احوال نہ کوئی خرچہ، بس جو کہا ہے نا کہ ہمیشہ کے لیے چلی گئی ہو اس پر پورا پورا عمل کر رہے ہیں۔

اب میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ان الفاظ کہ ’’ میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ آپ ہمیشہ کے لیے چلی گئی ہو میرا دل آپ کی طرف سے  مرچکا، آپ کو میرے لیے یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں اپنا بوریہ بستر اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے ‘‘۔ ان الفاظ کا شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’ آپ کو میرے لیے یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اپنا بوریہ بستر اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے ‘‘سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوچکی ہے اور نکاح ختم ہوگیا ہے ( اور مذکورہ صورت میں چونکہ عدت گذر چکی ہے اس لیے) اگر عورت کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔ اور اگر میاں بیوی باہم اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

ملحوظة: الكلمات التي تكلم بها الزوج من القسم الثالث للكنايات لعدم احتمال الرد و لا للسب فإنها متمحضة لقطع الوصلة. فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved