- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 5-297
- تاریخ: جولائی 17, 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات, طلاق و عدت
استفتاء
ایک آدمی کی بیوی کسی گھر گئی اور وہاں سے واپس آکر اس نے ان کی تعریف ایسے انداز میں کی کہ جس سے ناشکری کی تاثر مل رہا تھا۔ خاوند نے کہا تو وہاں جاتی ہے تو تیرا دماغ خراب ہوجاتا ہے۔ ’’ اب اگر تو گئی تو تیری میری ختم ‘‘ یا یہ کہا ’’ تیری میری بات ختم ‘‘۔ خاوند کو ان دو جملوں میں سے کسی ایک کے بارے میں حتمی تعیین نہیں ہے۔ اور طلاق دینے کی نیت بھی نہیں تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔
توجیہ: ’’ تیری میری ختم ‘‘یا ’’ تیری میری بات ختم ‘‘کنایہ کی دوسری قسم ہے کیونکہ ایسا جملہ بولنے سے متکلم کا مقصود مخاطب پر ناراضگی اور اس سے براءت کا اظہار بھی ہوسکتا ہے جو کہ سب و شتم کی حقیقت ہے۔ اور کنایہ کی دوسری قسم میں صرف حالت مذاکرہ میں بلا نیت طلاق ہوتی ہے۔ غضب اور اعتدال میں بلا نیت نہیں ہوتی۔ سوال میں ذکر کردہ حالت مذاکرے کی نہیں بلکہ اعتدال کی ہے یا زیادہ سے زیادہ غضب کی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved