• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سہ بار طلاق طلاق طلاق دے دی

استفتاء

رخصتی ابھی نہ ہوئی تھی اور نہ ہی تنہائی ملی تھی اور رخصتی سے پہلے طلاق نامہ پر دستخط کردیے۔ اب کیا دوبارہ نکاح کی کوئی صورت ہے؟ اگر ہے تو شریعت محمدی کے تحت برائے مہربانی فتویٰ صادر فرمائیں۔

الفاظ طلاق: مذکوریہ کو ہر سہ بار طلاق، طلاق، طلاق دے دی ہے۔([1])

([1])    جامعہ اشرفیہ کا جواب

صورت مسئولہ میں بشرط صحت بیان اگر واقعتاً آپ دونوں کے درمیان نکاح کے بعد کبھی خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو تو درج بالا الفاظ کے ذریعے سے آپ کی بیوی کو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ اور اب اگر آپ دونوں اکٹھے رہنا چاہیں تو شرعاً تجدید نکاح کر کے آپ دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ شامی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(قوله أو أنت طالق مراراً) في البحر عن الجوهرة لو قال أنت طالق مراراً تطلق ثلاثاً إن كان مدخولاً بها كذا في النهاية. و ذكر في البحر قبله بأكثر من ورقة عن البزازية أنت علي حرام ألف مرة تقع واحدة. و ما في البزازية ذكره في الذخيرة أيضاً و ذكره الشارح آخر باب الإيلاء. أقول و لا يخالف ما في الجوهرة لأن قوله ألف مرة بمنزلة تكريره مراراً متعددة و الواقع به في أول مرة طلاق بائن ففي المرة الثانية لا يقع شيء لأن البائن لا يلحق إذا أمكن جعل الثاني خبراً عن الأول كما في أنت بائن أنت بائن كما يأتي بيانه في الكنايات بخلاف ما إذا نوى الثلاث بأنت حرام أو أنت بائن فإنه يصح لأن لفظ واحدة صالح للبينونة الصغرى و الكبرى و قوله أنت طالق مراراً بمنزلة تكرار هذه اللفظ ثلاث مرات فأكثر و الواقع بالأولى رجعي و كذا بما بعدها إلى الثانية لأنه صريح و الصريح يلحق الصريح ما دامت في العدة و لذا قيد بالمدخول بها لأن غيرها تبين بالمرة الأولى لا إلى عدة فلا يلحقها ما بعدها فاغتنم تحرير هذا المقام فقد خفي على كثير من الأفهام. ( شامی: 3/ 280)

جیسا کہ علامہ سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حد الخلوة الصحيحة أن لا يكون هناك مانع يمنعه من وطئها طبعاً و لا شرعاً حتى إذا كان أحدهما مريضاً مرضاً يمنع الجماع أو صائماً في رمضان أو محرماً أو كانت هي حائضاً لا تصح الخلوة لقيام المانع طبعاً أو شرعاً. (مبسوط: 5/ 150) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

دار العلوم سے جاری شدہ فتویٰ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے نکاح کیا لیکن اب تک رخصتی نہیں ہوئی۔ رخصتی سے قبل لڑکے نے والد کی بات پر غصہ کرتے ہوئے کہا ’’ میں اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں ‘‘اب آیا اس صورت میں تین طلاقیں ہوئی یا ایک طلاق ہوئی؟ اس مسئلے میں اختلاف پایا جا رہا ہے۔ لڑکی والے کہتے ہیں دوبارہ نکاح کرلو تو شرعاً اجازت ہو تو کرلیا جائے۔ مذکورہ الفاظ تاکید کی نیت سے نہیں بولے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں اب رجوع نہیں ہوسکتا اور بغیر حلالہ کے نکاح بھی نہیں ہوسکتا، سوال میں ذکر کردہ طلاق کے الفاظ ’’ طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں ‘‘میں طلاق کا جملہ ’’ دیتا ہوں ‘‘پر پورا ہو رہا ہے اور حکم کا اثبات تکمیل جملہ کے بعد ہوتا ہے جزء ناقص سے حکم ثابت نہیں ہوتا، لہذا تینوں طلاقوں کا تعلق لفظ ’’ دیتا ہوں ‘‘کے ساتھ ہونے کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، فصار کقولہ ’’ تین طلاق دیتا ہوں۔ ‘‘

مذکورہ جواب کی تائید مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے ایک فتویٰ ( جو دارالعلوم دیوبند سے ۱۳۶۱ھ میں جاری ہوا) سے ہوتی ہے کہ جس میں حضرت رحمہ اللہ نے صورت مسئولہ کے مشابہ مسئلہ میں تین طلاقوں کے وقوع کا حکم بیان فرمایا ہے۔

مسئلہ زیر بحث میں غور کیا جاوے کہ اس میں ’’ ایک طلاق دو طلاق تین طلاق دیا میں ‘‘کہا گیا تو لفظ طلاق سے حسب قاعدہ مذکورہ طلاق واقع نہ ہونی چاہیے جب تک کہ لفظ ’’ دیا میں ‘‘ اس کے ساتھ نہ ملایا جاوے کیونکہ اس میں توصیغہ ایقاع یہی لفظ ’’ دیا میں ‘‘ہے، لفظ طلاق صیغہ ایقاع نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ اگر کلام میں ’’ دیا میں ‘‘مذکورہ نہ ہوتا تو صرف لفظ طلاق سے طلاق پڑ جاتی اور ’’ دیا میں ‘‘کو مقدر قرار دیاجاتا۔۔۔ اس لیے صورت مذکورہ میں ’’ دیا میں ‘‘کہنے سے پہلے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور جب ’’ دیا میں ‘‘کہا تو تین طلاق کے بعد کہا اس لیے تینوں طلاقیں اس غیر مدخول پر واقع ہوگئی۔ (رجسٹر نمبر۳/ مسئلہ نمبر۸۳ آمدہ از دارالعلوم دیوبند)

في المحيط البرهاني (٤/ ٤۰٦) تكرار الطلاق و إيقاع العدد في المدخولة و غير المدخولة. (ادارة القرآن)

في ’’ فتاوى الفضلي ‘‘إذا قال لها قبل الدخول بها اگر تو زن منى بيك طلاق و دو طلاق دست باز داشته، يقع ثلاث تطليقات و لو لم يقل دست باز داشته يقع واحدة لأن في الوجه الأول الكلام إنما يتم عند قوله دست باز داشته لأنه صار مغير اللأول فيتوقف فيقع الثلاث جملة و في الوجه الثاني أول كلامه تام فبانت به لا إلى عدة.

في خلاصة الفتاوى (۲/ ۸۷ مكتبه رشيديه):

رجل قال لامرأته قبل الدخول بها اگر تو زن وئي ترابيك طلاق و  دو طلاق و سه طلاق دست باز داشتم يقع ثلاث و لو لم يقل دست باز داشتم يقع واحدة.

في المحيط البرهاني (٤/ ٤۰۷) ادارة القرآن:

إذا قال لها و لم يدخل إن دخلت الدار فأنت طالق و طالق و طالق فدخلت الدار يقع واحدة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى و عندهما يقع الثلاث و لو قدم الجزاء فقال أنت طالق و طالق و طالق إن دخلت الدار فدخلت يقع الثلاث بلا خلاف و المسألة معروف.

كذا في خير الفتاوى (۵/ ۱۲۹) مكتبه امداديه ملتان …. و الله اعلم بالصواب

وضاحتی نوٹ: مذکورہ مسئلے کے متعلق دار الافتاء جامعہ دار العلوم***سے اس مسئلہ سے مشابہ تین جوابات رجسٹر نمبر ۷۰۳/ ۸۲، ۱۱۶۱/ ۱۲، ۱۱۰۹/۳ میں ایک طلاق واقع ہونے کا حکم لکھا گیا ہے لیکن اب جب یہ مسئلہ دار الافتاء میں آیا تو اس پر طویل غور و خوض اور تلاش بسیار کے بعد محیط برہانی اور خلاصة الفتاوے کی عبارات اس مسئلے کے متعلق ملیں جو صریح ہیں، اس کی مزید تائید محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے مفصل تحریر فرمایا تھا جس میں تین طلاقوں کے وقوع کا حکم ہے۔ لہذا حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی رئیس دار الافتاء کے مشورے کے بعد دارالافتاء دار العلوم کراچی سے اس مسئلے میں تین طلاقوں کے واقع ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا۔

مذکورہ فتویٰ

زوجہ غیر مدخول بہا کے بارے میں کہا کہ ایک طلاق دو طلاق تین طلاق ( تحقیقی فتویٰ)

السوال: فتویٰ نمبر ۱۱۶۱ رجسٹر الف ۵۹ھ کے متعلق مکرر سوال آیا جو درج ذیل ہے گذارش ہے کہ اس مرسل دونوں فتوؤں کے اختلاف کی وجہ سےیہاں مسلمانوں میں باہم سخت نزاع ہو رہا ہے اور ایک علاقہ کے مسلمان عوام و علماء دو فریق ہوگئے ہیں اور دہلی کے مفتی صاحب کی خدمت میں مستفتی نے عالمگیری عبارات لکھ کر دوبارہ استفتاء کیا جب بھی حضرت مفتی صاحب دہلوی نے وہی جواب اول تحریر فرمایا لہذا سخت نزاع میں گرفتار ہوکر حضور اقدس کو تکلیف دیتا ہوں کہ دونوں فتوی ملاحظہ فرما کر ہمارے لیے کوئی چارہ تجویز فرمادیں فقط ۔ ( وہ استفتاء جو دہلی روانہ کیا)

ایک شخص اپنی منکوحہ غیر مدخولہ بہا کے متعلق کسی عزیز سے کہا کہ تم نے میرے لیے ایک کانٹا بو دیا اس نے جواب دیا کیا تم کند کرنا نہیں جانتے ہو کند کردو ناکح نے کہا ایک طلاق دو طلاق تین طلاق دیا میں۔ لیجئے تمہارا کانٹا کند کردیا ایک مولوی صاحب نے پوچھا کہ کانٹا سے تمہاری کیا مراد ہے جواب دیا کہ جس عورت سے میں نے نکاح کیا تھا اس عورت کے بارے میں مولوی صاحبان میں اختلاف پڑگیا ایک کہتے ہیں کہ ایک طلاق واقع ہوئی دوسرےکہتے ہیں تین طلاق مغلظہ پڑگیا بعض لوگ ایک طلاق تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ وہی مذکورہ کو بغیر ناکح اول سے فقط نکاح جدید کرا دیا نکاح بغیر تحلیل عند الشرع درست ہوگا یا نہیں۔

الجواب (از دہلی)

ایک طلاق پڑی اور تجدید نکاح جائز ہوئی

الجواب (از دیوبند)

في الدر المختار و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به نفسه عند ذكر العدد و عند عدمه الوقوع بالصيغة. قال الشامي أي متى قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ماأجمعوا عليه من أنه لو قال لغير المدخول بها أنت طالق ثلاثاً طلقت ثلاثاً و لو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد (إلى قوله) ثم اعلم أن الوقوع أيضا بالمصدر عند ذكره و كذا بالصفة عند ذكرها كما إذا قال أنت طالق البتة حتى لو قال بعدها انشاء الله تعالى متصلاً لا يقع و لو كان الوقوع باسم الفاعل لوقع. ( شامى: ۲/ ٦۲۷)

و مثله في البحر حيث قال و قدمنا أن الوقوع بالمصدر و الوصف عند ذكرهما. (۳/ ۲۹۲)

عبارت مرقومہ سے معلوم ہوا کہ عدد اور وصف وغیرہ اگر طلاق کے ساتھ ذکر کیے جاویں تو جب تک وہ عدد اور وصف ذکر نہ ہو جائے کلام ناتمام رہتا ہے اور بغیرا س کے وقوع طلاق کا حکم نہیں کیا جاتا مثلاً اگر أنت طالق طلاقا کہا جائے تو محض أنت طالق سے کوئی طلاق نہ پڑے گی اور اگر صرف انت طالق ہی کہا جاتا تو محض اتنے ہی لفظ سے طلاق پڑ جاتی۔ مسئلہ زیر بحث میں غور کیا جائے کہ اس میں ’’ ایک طلاق، دو طلاق، تین طلاق دیا میں ‘‘کہا گیا تو لفظ طلاق سے حسب قاعدہ مذکورہ طلاق واقع نہ ہونی چاہیے جب تک کہ لفظ ’’ دیا میں ‘‘ اس کے ساتھ نہ ملایا جائے کیونکہ اس میں تو صیغہ ایقاع یہی لفظ ’’ دیا میں ‘‘ہے لفظ طلاق صیغہ ایقاع نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اگر کلام میں ’’ دیا میں ‘‘مذکور نہ ہوتا تو صرف لفظ طلاق سے طلاق پڑ جاتی اور ’’ دیا میں ‘‘کو مقدر قرار دیا جاتا اور غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ انت طالق طلاقاً سے زیادہ اس بارہ میں صریح ہے کیونکہ اس میں صیغہ ایقاع انت طالق ہے اور طلاقاً اس کے متعلقات میں سے ہے اور یہاں بصیغہ ایقاع خود بھی لفظ ’’ دیا میں ‘‘ہے۔ اس لیے صورت مذکورہ میں ’’  دیا میں‘‘کہنے سے پہلے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور جب ’’ دیا میں ‘‘کہا تو تین طلاق کے بعد کہا اس لیے تینوں طلاقیں اس غیر مدخول پر واقع ہوگئی مگر غور کرنے کے بعد بھی احقر کا یہی خیال ہے۔ دہلی کے فتویٰ کی وجہ سے اگر آپ کو تردد ہے تو دوسرے علماء سے مراجعت فرمائیں اور جس پر دیانتاً آپ کا قلب مطمئن ہو اس کو اختیار فرمائیں۔ فقط (کتبہ محمد شفیع عفی عنہ، دار العلوم دیوبند)

في الدر المختار مع هامش رد المحتار (٤/ ۵۰۰، مكتبه رشيديه)

و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به نفسه عند ذكر العدد.

و في البحر الرائق (۳/ ۵۰۹)

و قدمنا أن الوقوع بالمصدر و الوصف عند ذكرهما أيضاً.

و في  تبيين الحقائق (۳/ ۷۲)

و لا يقال لو كان الواقع هو العدد لما وقع عليها عند اقتصاره على قوله أنت طالق و لم يذكر العدد ماتت بعده أو لم تمت لأنا نقول تقدر الطلقة الواحدة عند عدم ذكرها اقتضاء و عند وجود ذكر العدد يقع المذكور فلا حاجة إلى التقدير.

و في الهندية ( ۱/ ۳۷۳)

و الأصل في هذه المسائل (في الطلاق قبل الدخول) أن الملفوظ به أولاً إن كان موقعاً أو لا وقعت واحدة و إذا كان الملفوظ به أولاً موقعاً اخرا وقعت ثنتان.

الجواب ( از مفتی رفيق صاحب دار الافتاء و التحقيق لاہور)

منسلکہ طلاق نامہ میں مذکورہ الفاظ ’’ مذکوریہ کو ہر سہ بار طلاق، طلاق، طلاق دے دی ہے ‘‘ سے تین طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی صلح ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ الفاظ کہ ’’ طلاق، طلاق، طلاق دے دی ہے ‘‘مجموعہ کا ایقاع ہے لہذا اس کے ساتھ جب یہ جملہ کہ ’’ ہر سہ بار ‘‘جوڑا گیا تو مطلب یہ بنا کہ اس مجموعہ کا ایقاع ہر تین بار ہوا۔ لہذا اس مجموعہ کے ایک بار ایقاع سے غیر مدخول بہا کو تین طلاقیں واقع ہوگئی اور باقی دو بار کا ایقاع لغو ہوگیا۔

یہ کہنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو یوں کہے کہ میں نے تین بار تین طلاق دی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں تین طلاق کا ایقاع تین بار ہو رہا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر ایک طلاق کا ایقاع علیحدہ علیحدہ ہو رہا ہو۔

جامعہ اشرفیہ کے فتوے میں مذکورہ عبارت ’’ أنت طالق مراراً  ‘‘يا ’’ أنت علي حرام ألف مرة ‘‘استفتاء میں مذکورہ عبارت پر منطبق نہیں ہوتی۔ اس عبارت کا مطلب تو صرف اتنا ہے کہ أنت طالق کا ایقاع بار بار کیا ہے۔ جو کہ أنت طالق کو متفرق کہنے کے قائم مقام ہے اور اس سے واقعی غیر مدخول بہا کو تین طلاقیں نہیں پڑتی بلکہ ایک ہی پڑتی ہے اور باقی لغو ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب کی مفتی رفیق صاحب کی مذکورہ بالا تحریر کے بارے میں رائے

میں سہ بار طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں۔ جو آپ نے لکھی ہے اس کا بھی احتمال ہے لیکن عرف کے خلاف ہے کیونکہ تین طلاقیں تین بار کہنا مروج نہیں ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ میں تین مرتبہ طلاق دیتا ہوں۔ اور تین مرتبہ جب ہی ہوسکتی ہے جب ایک ایک کرکے طلاق دے۔ تقدیر عبارت یہ ہوگی کہ ہر مرتبہ یہ کہتا ہے کہ طلاق دیتا ہوں۔ طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں اس طرح نہیں ہے۔

دار العلوم کے فتوے میں تین بار یا تین مرتبہ کا لفظ نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر کے الفاظ یہ ہیں: ’’ میں (نے) سہ بار طلاق، طلاق، طلاق دے دی ‘‘اس عبارت کے مدلول میں چند احتمال ہیں:

1۔ میں نے تین بار تین طلاقیں دے دیں۔

یہ احتمال کمزور ہے کیونکہ اس طرح سے کہنے کا عرف و رواج نہیں ہے۔ اس طرح سے تو ہے کہ ’’ تجھ کو سو طلاقیں ‘‘لیکن اس طرح نہیں کہ ’’ 10 بار 10 طلاقیں۔ ‘‘ہاں اگر یہ الفاظ اور معنی کو محتمل نہ ہوتے تو پھر یہی معنی لیا جاتا۔

2۔ لفظ ایقاع ’’ دے دی ہیں ‘‘ہے اور اس سے پہلے تین دفعہ طلاق کا لفظ لکھا ہے۔ لہذا یہ بھی احتمال ہے کہ ’’ تین طلاقیں دے دی ہیں۔ ‘‘یہ معنی دارالعلوم والوں نے اختیار کیا ہے۔ لیکن اس میں سہ بار کا لفظ موجود نہیں ہے صرف ’’ طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں۔ ‘‘اس لیے دار العلوم کا مسئلہ ہی دوسرا ہے۔

3۔ سہ بار طلاق دیتا ہوں یعنی ایک ایک کر کے تین مرتبہ طلاق دیتا ہوں اس لیے سہ بار کے بعد طلاق کا لفظ تین مرتبہ لکھا ہے۔ کیونکہ سہ بار کا لفظ اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ ایک ایک کر کے طلاق دیتا ہوں۔

یہ تیسرا احتمال ہی درست ہے اور اس کی مزید تائید جامعہ اشرفیہ کے فتوے میں منقول عبارتیں ہیں:

أنت طالق مراراً تطلق ثلاثاً إن كان مدخولاً بها … و لذا قيد بالمدخول بها لأن غيرها تبين بالمرة الأولي.

أنت علي حرام ألف مرة بمنزلة تكريره مراراً متعددة.

حاصل یہ ہے کہ جامعہ اشرفیہ کے فتوے سے اتفاق ہے۔ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ، مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کے استفتاء کے الفاظ مختلف ہیں اور ان کا زیر بحث مسئلے سے تعلق نہیں ہے۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

مفتی رفیق صاحب کی طرف سے مزید وضاحت

’’ ہر سہ بار طلاق، طلاق، طلاق دے دی ہے/ دیتا ہوں ‘‘سے متعلق جو بات بندہ نے عرض کی ہے اس کی تائید فقہائے کرام کے قول أنت طالق ثلاثاٍ سے اور اسی طرح دار العلوم کورنگی کے فتوے میں مذکور محیط برہانی کے حوالوں سے اور مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے فتوے سے ہو رہی ہے۔

باقی رہا یہ اشکال کہ تین طلاقیں تین بار کہنا مروج نہیں ہے۔ تو اس کا جواب بندہ کے خیال میں یہ آتا ہے کہ فقہائے کرام نے اس طرح کے جملوں میں اس بات کا اعتبار نہیں کیا کہ رواج کیا ہے اور کیا نہیں بلکہ یہ دیکھا ہے کہ اس جملے کا مدلول کیا بنتا ہے۔ اور اسی مدلول کو مدار طلاق قرار دیا ہے۔ چنانچہ أنت علي حرام ألف مرة کا مدلول یہ قرار دیا ہے کہ گویا قائل نے أنت علي حرام ہزار مرتبہ کہا ہے اور اس پر احکام کی تفریع کی ہے حالانکہ أنت علي حرام کا جملہ ہزار مرتبہ کہنا مروج نہیں۔

اور جو بات آپ نے لکھی ہے کہ سہ بار طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں کا معنی  تین مرتبہ  طلاق دیتا ہوں اس کی توجیہ سمجھ میں نہیں آسکتی۔ تقدیر عبارت تو توجیہ نہیں بلکہ تین مرتبہ طلاق دیتا ہوں کی تفصیل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ سہ بار طلاق، طلاق، طلاق دے دی ہے کی تقدیری عبارت ہم یوں نکالیں گے کہ تین طلاقیں تین بار دی ہیں۔ اب یہ تقدیری عبارت ہم نے کیوں نکالی ہے اس کی وجوہات وہ ہیں جو سابق میں ذکر ہوئی۔

مذکورہ بالا تحریر کے بارے میں مفتی عبد الواحد صاحب کی رائے

(۱) تین بار تین طلاقیں دیں۔

(۲) تین بار ایک ایک طلاق دی یعنی ہر مرتبہ ایک۔ یہ زوجین کے لیے اہون ہے۔ تائید اس سے بھی ہوتی ہے أنت طالق ألف مرة۔

(۳)سہ بار کی تفسیر طلاق، طلاق، طلاق سے کی یعنی تین طلاقیں اکٹھی دیں۔ یہ قرین قیاس ہے کیونکہ اس کا رواج زیادہ ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved