• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقیں لے لو اور دفعہ ہو جاؤ

استفتاء

جھگڑے کے دوران بیوی نے کہا کہ ‘‘مجھے تین طلاقیں دے دو تاکہ میں جاؤں’’۔ جواب میں شوہر نے کہا کہ ‘‘ٹھیک ہے تین طلاقیں لے لو اور دفعہ ہوجاؤ’’۔ بیوی نے پہلے بھی کئی مرتبہ طلاق مانگی ہے اور میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ‘‘لے لو’’۔ بتائیں کہ ہمارے نکاح کی کیا پوزیشن ہے۔ نکاح ہے یا نہیں؟

تین بچے ہیں۔ ایک لڑکا عمر 17 سال، دو بچیاں عمر 15 اور 13 سال ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر نے طلاق کے ارادے سے الفاظ بولے ہیں تو عورت کو تین  طلاقیں ہوگئی ہیں اور اگر طلاق کا ارادہ نہیں تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ: شوہر کے پہلے جملے ’’ تین طلاقیں لے لو‘‘ میں دو احتمال ہیں:

۱۔ جب تم میرے ساتھ رہنا چاہتی نہیں تو پھر میں تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں۔ طلاقیں لے لو۔

۲۔ جب تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو پھر مجھ سے طلاقیں لے لو یعنی مجھ سے طلاقیں طلب کرو۔ لہذا اگر شوہر کی نیت ہے تو تین طلاقیں ہوجائیں گی اور اگر نیت نہیں تو کوئی طلاق نہیں ہوگی۔ چنانچہ فتاویٰ عثمانی میں ہے:

‘‘ صورت مسئولہ میں پہلا قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ شوہر نے جہاز کے واقعے سے قبل اپنی بیوی سے جو کہا کہ ‘‘کیا تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہو تو مجھ سے طلاق لے لو، جاؤ طلاق لے لو’’۔ اس سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ بظاہر تو یہ جملہ عربی کے جملے ‘‘خذي طلاقك’’ فقالت  ‘‘أخذت’’ اختلف في اشتراط النية، و صحح الوقوع بلا اشتراطها. و ظاهره أنه لا يقع حتى تقول المرأة  ‘‘أخذت’’ و يكون تفويضاً و ظاهر ما قدمناه عن الخانيه خلافه و في البزازية معزياً إلى فتاوى صدر الإسلام و القاضي لا يحتاج إلى قولها ‘‘أخذت’’. ( البحر الرائق: 3/ 270)

علامہ شامی رحمہ اللہ نے بحر کی اس عبارت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ

و منه خذي طلاقك قالت أخذت فقد صحح الوقوع به بلا اشتراط نية كما في الفتح و كذا لا يشترط قولها أخذت كما في البحر. ( شامي: 2/ 430)

ليكن جس سياق میں شوہر نے مذکورہ جملہ کہا ہے اس کے پیش نظر اس میں اور عربی جملے ‘‘خذي طلاقك’’ میں فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ اردو محاورے میں مذکورہ جملے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تو پھر میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ‘‘طلاق لے لو’’۔ اور دوسرا مطلب اردو محاورے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تو پھر مجھ سے طلاق طلب کرلو، اردو محاورے کے لحاظ سے مذکورہ جملے میں دونوں معنی میں یکساں احتمال ہے۔ اس کے برخلاف ’’ خذي طلاقك‘‘ میں عربی محاورے کی روسے دوسرا احتمال نہیں بلکہ وہ پہلے معنی پر صریح ہے۔ اس لیے وہاں نیت کی ضرورت نہیں۔

اب اردو محاورے کے لحاظ سے اگر متکلم کی مراد پہلے معنی ہوں تب تو ‘‘خذي طلاقك’’ کے معنی میں ہوکر اس سے طلاق واقع ہوجائے گی لیکن اگر دوسرے معنی مراد ہوں تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ وہ طلاق کا ایقاع نہیں بلکہ بیوی کو اپنے آپ سے طلاق طلب کرنے کا امر ہے۔ اس صورت میں فقہ کے قریب تر جزئیات یہ ہیں: امرأة طلبت الطلاق من زوجتها فقال لها‘‘سه طلاق بردار و رفتي’’لا يقع و يكون هذا تفويض الطلاق إليها و إن نوى يقع. ( هنديه: 1/ 382) رجل دعا امرأته إلى الفراش فأبت فقال لها أخرجي من عندي فقالت طلقني حتى أذهب فقال الزوج ‘‘اگر آرزوئے تو چنیں است چنیں گیر’’ فلم تقل شيئاً و قامت لا تطلق، كذا في المحيط. ( هنديه: 1/ 382)

اور جب شوہر کے مذکورہ جملے میں دونوں کا احتمال ہے تو کسی ایک معنی کی تعیین میں اس کا قول معتبر ہوگا۔ لہذا ہوہ جو ان الفاظ کو ‘‘دھمکی اور مستقبل کا ارادہ’’ بتلاتا ہے۔ اگر وہ اس پر حلف کرکے کہ میرا مقصد طلاق دینا نہ تھا، بلکہ بیوی کو طلاق کے مطالبے کا حکم دینا تھا تو اس کا قول قضاءً معتبر ہوگا اور ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔‘‘ ( فتاویٰ عثمانی: 2/ 353-354)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved