• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کی نیت سے طلاق کی تحریر لکھ کر بیوی کو دے دی

استفتاء

میرا نام *** ولد***ہے۔ میری شادی 1997/11/23 کو ***سے ہوئی ۔ شادی کو تقریباً 24 سال ہوگئے ہیں، 24 سالوں میں ہماری کبھی لڑائی ہوتی تو کبھی بہت پیار، پھر میرے تین بچے ہوئے، 2 بڑی بیٹیاں اور 1 بیٹا ہو ا۔ 24 سالوں میں  کبھی کسی بھی چیز کی کمی نہیں آنے دی اور سسرال میں اچھی خاصی عزت تھی، ہم *** میں رہتے ہیں، میں ادھر نوکری کرتا تھا ، ہم نے گھر میں فیصلہ کیا، نوکری چھوڑی میں نے اپنا کاروبار کیا  اس میں کافی ترقی ملی 2022ء کو کاروباری حالات خراب ہونے لگے کبھی اچھا کھانا کبھی نہیں، 2018ء کو مجھے شوگر ہوگئی تھی، اس کے بعد میں گھر میں  کبھی بہت لڑتا کبھی نہیں،22/7/26 کو میں نے اپنے بیٹے کو بولا کہ لاہور  سے کچھ میٹریل لے کر آؤ، وہ آدھا میٹریل لاہور ہی میں چھوڑ آیا ، میں  نے پوچھا تو اس نے بدتمیزی سے جواب دیا ، میں نے اس کو مارا، چھوٹی بیٹی آکر اس کو چھڑا کر لے گئی اور اس نے بدتمیزی کی اور میں نے کچھ نہیں کہا، بس یہ بولا کہ تم چپ کرو، اپریل 2022ء سے لیکر 22/7/26 تک میں نے ان لوگوں کو  کہہ دیا تھا کہ مجھے بچالو ورنہ میں اپنے آپ کو مار لوں گا  نہیں تو کچھ ایسا کروں گا کہ تم ساری عمر  پچھتاؤ گی، پھر 4 دفعہ اپنے آپ کو مارنے کی کوشش کی،22/7/26 کو میں لڑائی کرکے جانے لگا تو  اپنی بیگم کو بولا کہ میں تم کو بیوہ کا  لقب نہیں دوں گا، بس تمہیں طلاق دوں گا، 9:45 پر میں گھر سے نکل گیا ۔ پھر میں نے طلاق کی تحریر لکھی اور لکھ کر اپنی دکان پر چھوڑ آیا،2:45 پر دوبارہ گھر آیا اور میں نے  تقریباً ایک  پاؤ  چاولوں میں چینی  ڈال کر کھائی کہ مجھے کچھ ہوجائے لیکن کچھ اثر نہیں ہوا، میں سوگیا، صبح 10:30 پر اٹھا تو دیکھا کہ ان لوگوں نے ناشتہ کیا مجھے نہیں پوچھا اور سوگئے، 12:30 بجے میرا شاگر دآتا ہے  میں اس کو بولتا ہوں کہ دکان سے میرا پرس لیکر آؤ، وہ پرس لیکر آیا، اس میں سے میں نے طلاق نامہ نکالا اور اپنی بیگم کو دیا  اور کہا تیرا میرا رشتہ آج ختم ہے اور میں بھوکا لالہ موسیٰ سے لاہور آگیا۔ کیا مذکورہ صورت حال میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں یا کوئی گنجائش باقی ہے۔‘‘

تنقیح: یہ تحریر میں نے طلاق کی نیت سے ہی لکھی تھی، اسی لیے بیوی کو دی تھی۔

بیوی کا بیان:

’’***۔ میری شادی 1997 میں***سے ہوئی تھی۔ ایک دفعہ  میرا بیٹا اور بیٹی ایک شادی سے واپس آئے، میرے شوہر نے بیٹے کو مال لانے کو کہا، اس نے تھان اور لاٹھا  لانا  تھا، وہ کم لایا، اس پر انہوں نے جوتی سے مارا، گندی گالیاں دیں اور کہا کہ گھر سے نکل جاؤ، بیٹی نے آکر چھڑایا اور کہا اس گھر میں جتنا بھی کام کرلیں عزت نہیں، میں نے کہا آپ بچوں کو روٹی تو کھا لینے دیتے پھر  بات کرتے، لیکن کہنے لگے کہ مرجاؤ سب، پھر میں نے کہا کہ چھری پکڑو اور مارو، پہلے مجھے مارنا، پھر میرے بچوں کو مارنا، کہنے لگے تمہیں بیوہ کروں گا، پھر ساتھ ہی کہا بیوہ نہیں، طلاق دوں گا  اور طلاقن کہلاؤ گی پھر تمہیں پتہ چلے گا اور موبائل توڑ کر دکان پر چلے گئے، وہاں رات رہے پھر صبح  گھر آئے  اور سوگئے، کاریگر  بلانے آیا تو کہا کہ آتا ہوں پھر بلانے آیا تو کہا کہ دکان سے پرس لاؤ، وہ پرس لایا تو اسی میں سے کاغذ نکال کر میز پر رکھا اور کہا  کہ میرا کوئی تعلق نہیں تم لوگوں سے ، اپنا تحفہ لے لو پھر گھر سے چلے گئے، پہلے بھی انہوں نے ایسے ہی میرے گھر والوں کو طلاق کی دھمکی کا میسج کیا تھا کہ آپ کی بیٹی کو طلاق  دینے لگا ہوں، آکر لے جاؤ۔ میری بیٹی کی تنخواہ خود لیتے تھے، جب نہ دیں تو لڑتے تھے۔ بیٹے کو  کام پر لگایا تو ا سکے پیسے بھی خود  لیتے تھے، گھر خرچہ بھی صحیح طرح نہیں دیا، کبھی آٹا نہیں تو کبھی تیل نہیں، پھر بھی میں نے گزارہ کیا، جب لالہ موسیٰ نئے آئے تھے تب بھی انہوں نے میری بیٹی کو مارا تھا اور ہڈی توڑ دی تھی ، اس پر بیٹی کو کہتے تھے ہاتھ پکڑ اور باہر نکال دو اس  پرمیں کہتی تھی وہ بیٹا نہیں جو نکال دو، میں نے اپنا 4 تولہ زیور بھی ان کو دیا ہے، ماں  باپ سے حصہ بھی ایک لاکھ پچاس  ہزار ان کو دیا ہے، کبھی عید پر کوئی فرمائش نہیں کی، نہ بچوں نے ، خود کے اور بیٹے کے کپڑے بنادیتے تھے وہ بھی ادھار پر، آج سے پہلے بھی بہت دفعہ مجھے گھر سے نکالا ہے، میں یہی کہتی تھی کہ مر کر نکلوں گی، پر اب حالات ایسے کردئیے ہیں کہ مجھے در بدر کردیا ہے میں کیا کروں؟ ایک چابی دکان کی دے کر گئے تھے کہ چیزیں بیچ دینا، پر اب دھمکیاں دیتے ہیں کہ کوئی چیز نہیں بیچنی، میری بڑی بیٹی کا گھر ان کی وجہ سے خراب ہوا ہے، ا سکا بھی زیور گروی رکھا ہوا ہے ، اس کا میاں اور ساس بھی اس کو تنگ کرتے ہیں، اس سے زیادہ کیا بتاؤں؟۔

طلاق نامہ کی عبارت:

طلاق نامہ

’’*** ولد *** میں اپنے ہوش وحواس  سے یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔

1.*** علی کو طلا ق دیتا ہوں۔

**** علی کو طلا ق دیتا ہوں۔
**** علی کو طلا ق دیتا ہوں۔

میں کسی کے دباؤ میں آکر نہیں لکھ رہا ہوں ’’طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں‘‘ ’’طلاق ، طلاق ، طلاق دیتا ہوں‘‘ (دستخط شوہر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

مذکورہ صورت میں شوہر اور بیوی کے بیان سے معلوم ہورہا ہے کہ شوہر سے بعض مواقع پر خلافِ عادت افعال مثلا اپنے آپ کو مارنے کی کوشش کرنا یا موبائل توڑنا وغیرہ سرزد ہوئے ہیں لیکن شوہر نے جب طلاق کی تحریر لکھی اور اس پر دستخط کیے تو اس وقت وہ پورے ہوش وحواس میں تھا اور گو یہ تحریر کی غیر مرسوم صورت ہے لیکن چونکہ اس نے یہ تحریر طلاق کی نیت سے ہی لکھی تھی اس لیے اس طلاقنامے میں موجود تین دفعہ طلاق کے ان صریح الفاظ سے کہ: ’’1.**** کو طلاق دیتا ہوں،  2. ****کو طلاق دیتا ہوں، 3. ****کو طلاق دیتا ہوں۔‘‘ تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔

فتاویٰ خیریہ(ص67) لخیر الدین الرملی میں ہے:

"والحكم في المجنون اذا عرف أنه جن مرة فطلق وقال عاودني الجنون فتكلمت بذلك وأنا مجنون ان القول قوله بيمينه وان لم يعرف بالجنون مرة لم يقبل قوله كما في الخانية والتاترخانية وغيرهما فظهر لك من هذا ان المدهوش ان عرف منه الدهش مرة فالقول قوله بيمينه وان لم يعرف لم يقبل قوله قضاء الا ببينة اذ الثابت بالبينة كالثابت عيانا اما ديانة فيقبل لأنه أخبر بنفسه”

تبیین الحقائق (6/218) میں ہے:

ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم وهو أن يكون معنونا أي مصدرا بالعنوان وهو أن يكتب في صدره من فلان إلى فلان على ما جرت به العادة في تسيير الكتاب فيكون هذا كالنطق فلزم حجة ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه لأن الكتابة قد تكون للتجربة وقد تكون للتحقيق . وبهذه الأشياء تتعين الجهة

در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved