• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

متعدد مرتبہ’’ یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ میری شادی مؤرخہ 06 اگست 2021 کو *** ولد ***کے ساتھ ہوئی، شادی کی شروعات میں ہی نجی پیچیدگیاں  ہونے لگیں پر اس میں شدت میری ساس کی وفات کے بعد آئی ، اس دوران ہونے والے تنازعات میں میرے شوہر نے وقفے وقفے سے ایسے الفاظ کہے جن کے بارے میں مجھے آپ سے رہنمائی درکار ہے جیساکہ شادی  کے 5ماہ بعد  دسمبر کے آخری دنوں میں  میری طبیعت خراب ہونے پر  رشتے داروں   کے سامنے لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثے میں میری والد ہ کو کہا  کہ ’’اسے لے جائیں مجھے اس کی ضرورت نہیں، یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘ ایسا  میرے شوہر نے دو سے تین با ر کہا اور ایسا ہی میرے شوہر نے میرے بھائی کے سامنے بھی کہا،  مجھے سامان لینے کے لیے شوہر نے امی کے گھر بھیجا اور کہا کہ رات 12 بجے سے پہلے گھر آنا ورنہ نہ آنا، میں نے امی کے گھر آکر بات کی تو میرے بھائی نے کہا کہ  چلتے ہیں بات کرتے ہیں، ہم 12 بجے سے پہلے گھر پہنچ گئے،  پھر بھی میرے بھائی نے میرے شوہر  کو چند دن کا ٹائم دیا کہ اچھے سے سوچ لو گھر بار بار نہیں بنتے، پھر کچھ دن بعد میرے شوہر نے میرے بھائی کو  فون کرکے بلایا کہ آپ آئیں میں نے بات کرنی ہے میرے بھائی گھر آئے اور بات شروع ہوئی تو باتوں باتوں میں خاندانی رسوم کی باتیں شروع ہوئیں تو میرے بھائی نے کہا کہ بھائی تمہاری رسومات کا ہمیں کیا پتہ  ابھی تمہاری والدہ کی وفات پر قلوں والے دن  مجھے پتہ چلا کہ آپ لوگوں کے خاندان میں کوئی فوت ہوجائے تو آپ میں تین دن میٹھا بانٹنے کا رواج بھی ہے یہ بات سن کر میرے شوہر پھر آگ بگولہ ہوگئے اور کہنے لگے آپ اس کو لے جائیں میری ماں فوت ہوئی ہے اور آپ کیا باتیں کررہے ہیں؟ مجھے بتائیں کس نے میٹھا بانٹا ہے بتائیں مجھے؟ میں اس سے پوچھوں کہ کیوں اور کب یہ کام ہوا ہے میرے گھر؟ اور کس نے کیا ہے؟ جس پر میں نے ان کو کہا  کہ یہ ہوا تھا اور جب میں نے ان کی بہن کو بلایا  جس کے سامنے یہ سب ہواتھا اور میرے بھائی کو کہا گیا تھا کہ ہمارے ہاں یہ قلوں والے دن کی رسم ہے،  لیکن جب اس کو بلایا تو اس نے میرے شوہر اور اپنے بھائی کے سامنے کچھ نہیں کہا اور دوسری باتیں کرنے لگی،  جس پر میرے شوہر نے غصے میں کہا کہ ’’آپ اس کو لے جائیں جن لوگوں کے سامنے  یہ میٹھا بانٹنے والی بات ہوئی ہے اب ان  کے سامنےبات ہوگی، آپ اسے لے جائیں مجھے اس کی ضرورت نہیں، یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘  اب میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ (1)کیا مذکورہ صورت میں طلاق ہو گئی ہے؟

(2) اس بارے میں بھی راہنمائی فرمائیں کہ میرا حق مہر غیر معجل ایک لاکھ روپے ہے جو کہ میرے شوہر نے  ابھی تک نہیں دیا ، میں اس کی کس قدر حقدار ہوں؟

نوٹ: بیوی کی طر ف سے دیئے گئے نمبر پر مختلف اوقات میں کئی مرتبہ کال کی گئی لیکن یا تو نمبر  بند ملتا ہے یا شوہر کال نہیں اٹھاتا اور بیوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ شوہر اس بارے میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں اگر واقعتا  شوہر نے غصے میں یہ کہا تھا کہ ’’ یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘  تو بیوی کےحق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ  نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے  پہلی مرتبہ غصے  میں یہ کہا کہ  ’’ یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘  تو ان الفاظ سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی کیونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں ، جن سے غصے کی حالت میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے،اور البائن لا یلحق البائن کے تحت متعدد مرتبہ یہ الفاظ بولنے کے باوجود ایک طلاق واقع ہوئی ہے ۔

(2) مذکورہ صورت میں غیر معجل  مہر ادا کرنا شوہر کے ذمے واجب ہے اور آپ  شوہر سے حق مہر کا مطالبہ کر سکتی ہیں،  کیونکہ اگر غیر معجل مہر کی ادائیگی کی  کوئی مدت مقرر نہ کی گئی ہو تو طلاق یا میاں بیوی میں سے کسی ایک کی موت اس کی مدت  ہوتی ہے ۔

درمختار (4/521) میں ہے:

 (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

و فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

درمختار (4/531) میں ہے:

(لا) يلحق البائن (البائن)

عالمگیری (318/1) میں ہے:

ولو قال نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم لا يجوز الأجل ويجب حالا وقال بعضهم يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع، لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط.

احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:

سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے "تو فارغ ہے " یہ کون سا کنایہ ہے؟…… حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجروا

جواب :الجواب باسم ملہم الصواب

 بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved