• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’میں ان عورتوں سے اس کے بعد تعلق نہیں رکھوں گا اگر رکھ لیا تو تم مجھ پر طلاق ہو‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

میں محکمہ صحت میں کام کرتا ہوں،ہمارے ساتھ عورتیں بھی کام کرتی ہیں شادی کے بعد میری بیوی نے میرے موبائل سے ان عورتوں کے ساتھ میری  گپ شپ کی باتیں سنیں جس سے وہ بہت پریشان ہوگئی حتی کہ بعض مرتبہ بے ہوشی میں چلی گئی۔اس کی پریشانی دور کرنے کے لیے میں نےایک مرتبہ کہا’’میں اس کے بعد  ان عورتوں سے تعلق نہیں رکھوں گا اگر رکھا تو تم مجھ پر طلاق ہو‘‘ ان کو منانے کے لیے شاید میں نے یہ بات باربار کی ہوکہ’’جیسے تم کہو گی میں ویسا ہی کروں گا‘‘ میری مراد یہ تھی کہ غیر ضروری گپ شپ نہیں کروں گا،چند مہینے بعد ہماری ایک فوتگی ہوگئی ان عورتوں کو پتہ چلا تو تعزیت کے لیے فون کیا اور  پھر غیر ضروری باتیں  شروع ہو گئیں۔اب آپ بتادیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے اور کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟  اگر ہوئی ہے تو کتنی واقع ہوئی ہیں؟

تنقیح: مذکورہ عورتوں سے رابطے کے بعد ہم میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اور میاں بیوی والا تعلق بھی قائم ہوا، نیز ’’عورتوں سے تعلق نہیں رکھوں گا ‘‘سے مراد غیر ضروری گپ شپ  نہ کرنا  تھا لیکن غیر ضروری گپ شپ دوبارہ شروع ہوگئی ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہو ئی تھی اس کے بعد چونکہ میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اس لیے رجوع ہوجانے کی وجہ سے نکاح قائم ہے آئندہ شوہر کے لیے دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ گیا ہے  ۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی سے کہا کہ ’’میں اس کے بعد ان عورتوں سے تعلق نہیں  رکھوں گا اگر رکھا تو تم مجھ پر طلاق ہو‘‘ اس جملے سے ان عورتوں سے تعلق رکھنے پر طلاق معلق ہوگئی تھی پھر جب شوہر کے کسی عزیز کے فوت ہونے پر ان عورتوں نے فون کیا اور غیر ضروری گپ شپ شروع ہوگئی تو  وہ تعلق پایا گیا جس پر طلاق کو معلق کیا تھاجس سے مشروط طلاق واقع ہوگئی اور شرط ختم ہوگئی اور شوہر نے چونکہ ایک صریح طلاق کا لفظ استعمال کیا تھا اس لیے اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ۔  اس کے بعد میاں بیوی کے اکٹھے رہنے کی وجہ سے رجوع ہوگیا اس لیے دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ۔

فتح القدير لكمال ابن الہمام (4/ 120)میں ہے:

(وألفاظ الشرط إن وإذا وإذا ماكل وكلما ومتى ومتى ما)…….(ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت وانتهت اليمين) لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة، فبوجود الفعل مرة يتم الشرط ولا بقاء لليمين بدونه

ہدایہ (2/ 254)میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته ‌تطليقة ‌رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض  لقوله تعالى: {فأمسكوهن بمعروف} [البقرة: 231] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها ” والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة.قال: ” أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو بنظر إلى فرجها بشهوة.

ہدایہ (1/225) میں ہے:

ولو قال أنت الطلاق أو أنت طالق الطلاق أو أنت طالق طلاقا فإن لم تكن له نية أو نوى واحدة أو ثنتين فهي واحدة رجعية وإن نوى ثلاثا فثلاث ” ووقوع الطلاق باللفظة الثانية والثالثة ظاهر لأنه لو ذكر النعت وحده يقع به الطلاق فإذا ذكره وذكر المصدر معه وأنه يزيده وكادة أولى.وأما وقوعه باللفظة الأولى فلأن المصدر قد يذكر ويراد به الاسم يقال ‌رجل ‌عدل أي عادل فصار بمنزلة قوله أنت طالق وعلى هذا لو قال أنت طلاق يقع الطلاق به أيضا ولا يحتاج فيه إلى النية ويكون رجعيا لما بينا أنه صريح الطلاق لغلبة الاستعمال فيه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved