• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے اور بلڈ پریشر ہائی ہونے کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتےہیں مفتیان کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے اور میری بیگم کے درمیان چھوٹی سی بات پر معمولی جھگڑا ہوا ہے، میں نے غصہ میں آ کر اپنی بیگم کو طلاق کے الفاظ کہہ دیے ہیں، میں بلڈ پریشر کا مریض ہوں غصے کے عالم میں مجھے ہوش نہیں رہتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، طلاق کے الفاظ بولتے وقت بھی میں ہوش میں نہیں تھا، تقریبا آدھے گھنٹے  کے بعد جب   ہوش میں آیا تو میرے گھر میں میری والدہ صاحبہ اور دو بھابھیاں موجود تھیں، میری والدہ صاحبہ اونچا سنتی ہیں اس لیے ان کو معلوم نہیں تھا کہ میں نے کیا کہا،  دونوں بھابیوں نے  مجھے بتایا کہ آپ نے اپنی بیگم کو تین بار طلاق کے الفاظ کہہ دیے ہیں،   میرے استفسار پر بھابیوں نے بتایا کہ میں نے مندرجہ ذیل ترتیب سے طلاق کے الفاظ کہے ہیں ’’طلاق طلاق طلاق‘‘ وقوعہ سے کچھ دیر قبل معاملات زندگی بالکل نارمل اور خوشگوار تھے، بلڈ پریشر اور غصہ کے عالم میں یہ الفاظ کہے تھے، مظہر حلفا اقرار کرتا ہے کہ مظہر کو کچھ بھی یاد نہ ہے کہ مظہر نے ایسا کچھ کہا ہے اور طلاق کی نیت بھی ہرگز نہیں تھی، لڑائی جھگڑے کے بعد مظہر کو بلڈ پریشر کے باعث  الٹی بھی ہوئی ہے،  مندرجہ بالا حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں مظہر کی راہنمائی فرمائی جائے کہ  مظہر کی  بیوی پر طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟

حلفی بیان:

"میں اشفاق احمد ولد اشرف ساکن دھیرکوٹ تحصیل دھیرکوٹ ضلع باغ کا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر جانتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ میں نے جو الفاظ کہے مجھے ان کا کوئی علم نہ ہے کیونکہ اس وقت میرا B.Pبہت ہائی تھا اور مجھے اس وقت کوئی ہوش نہ تھا اور نہ ہی ایسے کوئی  الفاظ کہنے کی میری نیت تھی”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق کے الفاظ بولتے  وقت اگر غصہ اتنا شدید ہو کہ شوہر کو معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے تو  غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی، چونکہ مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت  شوہر کو معلوم نہیں تھا  کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور اس پر اس نے حلفی  بیان بھی دیا ہے لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

 

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله…………… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved