• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کنائی الفاظ بولنے کے بعد غصے میں تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   2022-09-27كو میرے شوہر نے دفتر جاتے ہوئے اپنی والدہ اور بھابھی کے سامنے مجھے کہا کہ ’’یہ میری طرف سے آج بھی فارغ ہے اور چھ ماہ بعد بھی فارغ ہے، سب میری یہ بات سنجیدگی سے نوٹ کرلیں‘‘ اس وقت *** مکمل ہوش وحواس میں نہایت پُر سکون تھے۔ دو دن بعد  رات کو *** کے بڑے بھائی *** کو سمجھا بجھا کر گھر لے کر آئے اور مجھے کہا کہ اپنے خاوند کو کھانا دو، میں کھانا دینے پاس گئی تو *** نہایت غصے سے بولے کہ اس کو دور لے جاؤ اور پھر ساتھ ہی بولا کہ ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ تین دفعہ یہ الفاظ ایک ہی سانس میں بول کر *** اپنے بھائی سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے ’’لو خوش ہوجاؤ تم یہی چاہتے تھے نا‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔ جب گھر والے اکٹھے ہوگئے تو تقریباً پانچ منٹ بعد ہی *** اپنے گھر والوں کو کہنے لگے کہ رابعہ عدت ادھر ہی گزارلے ابھی اس کے میکے والوں کو فون نہ کرو، کوئی نہ کوئی حل نکل سکتا ہے۔ برائے مہربانی فتویٰ جاری کردیں کہ  میرے شوہر نے طلاق بائن کے بعد جو تین دفعہ طلاق دی ہے اس کا کیا حکم ہے؟

شوہر کا بیان:

دارالافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا:

2022-09-27كو میں نے دفتر جاتے ہوئے اپنی بیوی کےبارے میں یہ کہا کہ ’’یہ میری طرف سے آج بھی فارغ ہے اور چھ ماہ بعد بھی فارغ ہے‘‘ اس وقت میں غصے میں تھا لیکن میری طلاق کی نیت نہیں تھی، پھر  دو دن بعد   نہایت غصے   میں  طلاق کے الفاظ بولے تھے،  کتنی مرتبہ طلاق کے الفاظ بولے تھے؟ اور کیا الفاظ بولے تھے؟ یہ مجھے یاد نہیں، بس صرف اتنا یاد ہے کہ طلاق کے الفاظ بولے تھے، اس وقت مجھے غصے کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور میری طلاق کی نیت بھی نہیں تھی  ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے غصے میں  یہ کہا کہ ’’یہ میری طرف سے آج بھی فارغ ہے اور چھ ماہ بعد بھی فارغ ہے‘‘ تو ان الفاظ سے  بیوی  کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی اور شوہر کے حق میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ مذکورہ جملہ  کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے  بیوی کے حق میں غصے کی حالت میں نیت کے بغیر  بھی طلاق  ہوجاتی ہے اگرچہ شوہر کے  حق میں طلاق واقع نہیں ہوتی ، پھر دو دن بعد جب شوہر نے غصے میں یہ کہا  کہ ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ تو  الصریح یلحق البائن کے تحت بیوی کے حق میں  مزید دو طلاقیں واقع ہو گئیں اور شوہر کے حق  میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں کیونکہ  اگرچہ شوہر کو  غصے کی وجہ سے یہ یاد نہیں  کہ اس  نےطلاق کا لفظ  کتنی مرتبہ کہا ہے لیکن یہ معلوم ہے کہ طلاق کا لفظ کہا ضرور ہے اور جب غصہ میں اتنامعلوم ہو کہ  اس  نے طلاق دی ہے چاہے یہ یاد  نہ رہے کہ کہ کتنی مرتبہ دی ہے تو ایسے غصے میں دی گئی اور عدد میں وہ سننے والوں پر اعتماد کرسکتا ہے جیساکہ اگر اسے غصے میں طلاق دینا تو یاد ہو لیکن استثناء کرنا یاد نہ رہے تو وہ سننے والوں پر اعتماد کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله……………

 فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

شامی (4/439) میں ہے:

 لو طلق فشهد عنده اثنان أنك استثنيت وهو غير ذاكر، وإن كان بحيث إذا غضب لا يدري ما يقول وسعه الأخذ بشهادتهما وإلا لا اهـ مقتضاه أنه إذا كان لا يدري ما يقول يقع طلاقه وإلا فلا حاجة إلى الأخذ بقولهما إنك استثنيت، وهذا مشكل جدا،إلا أن يجاب بأن المراد بكونه لا يدري ما يقول أنه لقوة غضبه قد ينسى ما يقول ولا يتذكره بعد، وليس المراد أنه صار يجري على لسانه ما لا يفهمه أو لا يقصده إذ لا شك أنه حينئذ يكون في أعلى مراتب الجنون، ويؤيده هذا الحمل أنه في هذا الفرع عالم بأنه طلق وهو قاصد له، لكنه لم يتذكر الاستثناء لشدة غضبه، هذا ما ظهر لي في تحرير هذا المقام، والله أعلم بحقيقة المرام ثم رأيت ما يؤيد ذلك الجواب، وهو أنه قال في الولوالجية: إن كان بحال لو غضب يجري على لسانه ما لا يحفظه بعده جاز له الاعتماد على قول الشاهدين، فقوله لا يحفظه بعده صريح فيما قلنا والله أعلم

درمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين.(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق،

درمختار (528/4) میں ہے:

( الصريح يلحق الصريح و ) يلحق ( البائن )

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

درمختارمع ردالمحتار (4/521) میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

و فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:

سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے "تو فارغ ہے ” یہ کون سا کنایہ ہے؟…… حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجروا

جواب :الجواب باسم ملہم الصواب

 بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved