• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے غصے میں دو دفعہ طلاق کا میسج کیا، پھر کچھ عرصہ بعد ایک طلاق زبانی دے دی، کیا تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں؟

استفتاء

میرا نام***ہے، میرے شوہر نے مجھے 2 مرتبہ واٹس ایپ کے ذریعے طلاق دی۔ پہلی مرتبہ 23 جنوری 2021ء کو، اس کے ایک دن بعد ہماری صلح ہوگئی اور ہم اکٹھے رہتے رہے۔ پھر دوسری مرتبہ 3 اپریل 2021ء کو، اس کے بعد بھی دو دن کے اندر ہماری صلح ہوگئی تھی۔ اب تیسری مرتبہ زبانی کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک مرتبہ بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ ایک ہی دفعہ تین مرتبہ بولنے سے طلاق ہوتی ہے لہٰذا کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ میں بہت پریشان ہوں، میری رہنمائی فرمائیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

وضاحت مطلوب ہے  کہ :

(1)پہلی اور دوسری طلاق لکھ کر دی تھی یا بول کر؟ اور الفاظ کیا تھے؟

(2)شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

جوابِ وضاحت:

(1)پہلی اور دوسری طلاق لکھ کر دی تھی اور دونوں مرتبہ الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘

(2)شوہر کا رابطہ نمبر یہ ہے: *******

فون کال کے ذریعے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مندرجہ ذیل بیان دیا:

’’میں نے بیوی کو کبھی بھی ایک دفعہ میں تین مرتبہ طلاق کا نہیں بولا، بلکہ ہر دفعہ ایک مرتبہ کہا تھا۔ میسج پر بھی اور ویسے بھی۔ بس غصے میں لڑائی کے دوران بیوی کو ڈرانے کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تھا، اور کبھی بھی میری نیت طلاق دینے کی بالکل نہ تھی۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، لہٰذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔

توجیہ: ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ ہے اور طلاق کی کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ سے غصہ یا مذاکرۂ طلاق کے وقت شوہر کی نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے چونکہ دو دفعہ  صریح طلاق کے تحریری میسج غصہ کی حالت میں بھیجے تھے اس لیے طلاق کی نیت نہ ہونے کے باوجود ان سے بیوی کے حق میں دو طلاقیں واقع ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد جب شوہر نے ایک مرتبہ زبانی طلاق دی تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

البحر الرائق (8/544) میں ہے:

ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا؛ لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالبينة والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه؛ لأن الكتابة قد تكون للتجربة وقد تكون للتحقيق وبهذه الإشارة تتبين الجهة

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

در مختار (5/25) میں ہے:

باب الرجعة: بالفتح وتكسر يتعدى ولا يتعدى (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) …….. (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved