• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں،اب وہ میری بیوی نہیں رہے گی”کہنے کا حکم

استفتاء

ایک شخص نے طلا ق دیتے ہوئے کہا کہ’’میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں،اب وہ میری بیوی نہیں رہے گی‘‘اس جملہ سے کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟ اور کونسی طلا ق واقع ہوئی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟

جواب وضاحت: یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس دارالافتاء میں ایک سائل نے یہ مسئلہ بھیجا تھا اور ہمارے پاس اس سائل کا رابطہ نمبر موجود نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی ہے لہٰذا اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تو نکاح باقی رہے گا اور اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہ کیا  تو سابقہ نکاح ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے کم از کم  دو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے   یہ کہا کہ ’’میں اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہوں‘‘ تو ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، پھر اس کے بعد جب شوہر نے کہا کہ  ’’اب وہ میری بیوی نہیں رہے گی ‘‘ تو اس جملہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،کیونکہ یہ مستقبل کا جملہ ہے اور مستقبل کے جملے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری(1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته ‌تطليقة ‌رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية

فتاوی عالمگیری(1/384) میں ہے:

في المحيط لو قال بالعربية ‌أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا

فتاوی تنقیح الحامدیہ(1/38) میں ہے:

صيغه المضارع لايقع بها الطلاق الا اذا غلب فى الحال.

فتاوی دارالعوم دیوبند(9/75) میں ہے:

(سو ال   )***نے اپنی بیوی*** کو غصہ کی حالت میں تین دفعہ یہ الفاظ کہے کہ میں تجھ کو طلاق دوں گا آیا طلاق ہوئی یا نہ ؟

(جواب)الفاظ مذکورہ کہنے سے*** پر طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ مستقبل کے لفظ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved