• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد کے خودکشی کرنے کے خوف سے بیوی کو طلاق کا میسج کرنا

استفتاء

والدین نے اپنی مرضی اور خوشی سے میری شادی کی۔ جس سے میری بیٹی پیداہوئی، کچھ عرصہ بعد میرے والدین اور بیوی کے درمیان گھریلو اختلافات شروع ہوگئے۔ اختلافات یہاں تک بڑھ گئے کہ میرے والدین اور بیوی کا ایک گھر میں رہنا مشکل  ہوگیا اس کے بعد میری بیوی اپنے والدین کے گھر گئی اور اس  کےبھائیوں نے اسے اپنے گھر بٹھالیا اور اپنے گھر زوڑکلے میں رہنا شروع کیا  تو میری بیوی اور بچی کا جتنا خرچہ ہوتا تھا وہ میں کرتا تھا  چونکہ میں مسافر تھا اور متحدہ عرب امارات میں ڈیوٹی کرتا تھا اور ابھی بھی کررہا ہوں  جب میں چھٹی پر گیا تو حیات آباد میں، میں نے کرایہ پر گھر لیا اور چھٹی ادھر گذاری اسی دوران *** (جوکہ میری بیوی کابھائی) سے اس بات پر متفق ہوئے  کہ چونکہ میں  تو مسافر ہوں لہٰذا چھٹی گذارنے کے بعد  آپ میری بیوی جو کہ آپ کی بہن ہے کے ساتھ حیات آباد میں ہی رہیں گے اور اپنی بہن اور میری بیٹی کی دیکھ بھال کریں گے لیکن وہ پھر بھی زوڑ کلے اپنی رہائشی گھر میں رہائش پذیر ہوئے اور میری بیوی اور بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے اسی دوران میری بیوی امید سے تھی  اور ان کے کھانے، پینے، علاج معالجے کا جتنا بھی خرچہ ہوتا تھا وہ میں ہی بھیجتا تھا پھر امید کا وقت مکمل ہوا  اور میری بیوی کے بہن بھائی ہسپتال لے گئے اور وہاں میرا مرا ہوا بیٹا پیدا ہوا تو میری بیوی کے  بہن بھائی اور ماں بچے کی لاش زوڑ کلے لے گئے اسی دوران میری*** سے فون پر بات ہوئی کہ میرے بچے کو میرے آبائی قبرستان جوکہ سرہ خاورہ میں ہے دفن کرلیں، *** نے درخواست کی ہم بچے کی لاش کو پہلے اپنی ماں کے ساتھ زوڑ کلے لے جاتے ہیں کہ وہاں میرے خاندان والے دیدار کرلیں پھر سرہ خاورہ لے جائیں گے۔

میں نے اپنے خاندان میں اپنے دو چچا اور دو خالہ کو فون کیا کہ زوڑ کلے چلے جائیں اور وہاں سے میرے بچے کی لاش سرہ خاورہ لے آئیں اور دفن کرلیں جب میرے خاندان والے زوڑ کلے چلے گئے تو*** نے لاش حوالے کرنے سے  انکار کردیا، میرے خاندان والوں کو گالیاں دیں لیکن پھر لاش کو میرے خاندان والوں کے حوالے کیا۔ جب میرے خاندان والے واپس آرہے تھے تو تقریباً آدھے کلومیٹر کے فاصلے سے بھی کم پر پھر میری بیوی کے بھائی اور چچا زاد نے ہماری گاڑی کو روکا اور اور گالی گلوچ اور ہاتھا پائی کرکے زبردستی لاش واپس لے گئے اور سیدھا زوڑ کلے قبرستان جاکر دفن کیا  اور ان کے بس میں جتنا ممکن تھا ہمارے خاندان والوں کی بے عزتی کی ۔ جب میرے خاندان والے گھر واپس آئے تو والد صاحب کو پتہ چلا وہ شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے مریض ہیں تو اس(والد) نے میسج (واٹس ایپ) کیا کہ ابھی اور اسی وقت طلاق دیدو لیکن میں نے اپنے والد صاحب کو جھوٹ اور بہانہ بناکر کہا کہ ان کا فون بند ہے اور6-5 گھنٹے ٹال مٹول کرتے رہے کہ کسی طرح یہ مسئلہ امن سے حل ہوجائے پھر گھر سے فون آیا اور والد صاحب نے کہا کہ اگر طلاق نہیں دی تو جو قبر بچے کے لیے بنائی ہے وہ میری قبر ہوگی، میں نے پھر کہا کہ ان سے رابطہ نہیں ہورہا ہے اس لیے کہ میں طلاق نہیں دینا چاہتا تھا ۔ والد صاحب شدید غصے میں تھے ان سے ہمارے خاندان کی بے عزتی برداشت نہیں  ہورہی تھی اور یہی کہہ رہے تھے کہ اگر طلاق نہیں دی تو خود کشی کرلوں گا پھر والد صاحب نے واٹس ایپ پر میسج کیا  کہ اگر ان کے فون بند ہیں تو ایک کاغذ پر طلاق لکھ کر ان کو بھیج دو اور چچا ناہدرلی کو بھی بھیج دو اور ایک گھنٹہ کا ٹائم دیا  اور میں نے وہ الفاظ جوکہ میرے والد صاحب نے بتائے بالکل اسی طرح لکھے اور واٹس ایپ پر بھیج دئیے  لیکن جو الفاظ میں نے لکھے ہیں وہ میں نے زبان سے نہیں کہے ہیں اور نہ میری نیت تھی، مجبوری کے تحت لکھے ہیں۔ جو الفاظ والد صاحب کے کہنے پر مجبوری میں لکھے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

"*** کی بیٹی، ***کی بہن ***کو طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں”محمد یعقوب

لہٰذا آپ صاحبان شریعت محمدی کی رُو سے میری رہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا آپ   کے والد   نے آپ کو خود کشی کی دھمکی دی تھی اور آپ کو بھی غالب گمان تھا کہ اگر آپ نے طلاق لکھ کر نہ دی تو آپ کے والد خود کشی کر لیں گے،   اس لیے آپ نے دباؤ میں آ کر سادہ کاغذ پر طلاق لکھ دی، اور آپ کی طلاق کی نیت بالکل نہ تھی تو  آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن اگر آپ کو طلاق لکھ کر نہ دینے کی صورت میں اپنے والد کی خود کشی کا غالب گمان نہ تھا تو تینوں طلاقیں ہوگئیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ والد نے بیٹے کو خود کشی کی دھمکی دی تھی اور والد کی خود کشی کی دھمکی کی وجہ سے رضا معدوم ہو جاتی ہے، لہذا اگر بیٹے کو بھی غالب گمان تھا کہ اگر اس  نے طلاق لکھ کر نہ دی تو اس کا والد خود کشی کر لے گا تو اکراہ ثابت ہو گیا اور مکرہ کی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی۔

درمختار مع ردالمحتار (4/427) میں ہے:

(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ……….

و في الشامية تحته: وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية.

عالمگیری (1/379) میں ہے:

رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضى خان.

درمختار مع ردالمحتار  (217/9) میں ہے:

الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع)

شامی (217/9) میں ہے:

(قوله: أو حبس) أي حبس نفسه قال الزيلعي: والإكراه بحبس الوالدين أو الأولاد لا يعد إكراها لأنه ليس بملجئ ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه اهـ لكن في الشرنبلالية عن المبسوط: أنه قياس وفي الاستحسان حبس الأب إكراه وذكر الطوري أن المعتمد أنه لا فرق بين حبس الوالدين والولد في وجه الاستحسان زاد القهستاني: أو غيرهم: من ذوي رحم محرم وعزاه للمبسوط.

البحرالرائق (129/8) میں ہے:

والإكراه بحبس الوالدين والأولاد لا يعد إكراها لأنه ليس بإكراه ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه وفي المحيط، ولو أكره بحبس ابنه أو عبده على أن يبيع عبده أو يهبه ففعل فهو إكراه استحسانا، وكذا في الإقرار ووجهه أن الإنسان يتضرر بحبس ابنه أو عبده ألا ترى أنه لا يؤثر حبس نفسه على حبس ولده فإن قلت بهذا نفى الأول قلنا لا فرق بين الوالدين والولد في وجه الاستحسان وهو المعتمد كما لا فرق بينهما في وجه القياس.

مبسوط سرخسی میں (143/24) ہے:

ولو قيل له: لتقتلن ابنك هذا، أو أباك، أو لتبيعن عبدك هذا بألف درهم، فباعه، فالقياس أن البيع جائز لأنه ليس بمكره على البيع، فالمكره من يهدد بشيء في نفسه، ولكنه استحسن، فقال: البيع باطل؛ لأن البيع يعتمد تمام الرضا، وبما هدد به ينعدم رضاه، فالإنسان لا يكون راضيا عادة بقتل أبيه، أو ابنه، ثم هذا يلحق الهم، والحزن به، فيكون بمنزلة الإكراه بالحبس، والإكراه بالحبس يمنع نفوذ البيع، والإقرار، والهبة والعقود التي تحتمل الفسخ، فكذلك الإكراه بقتل ابنه وكذلك التهديد بقتل ذي رحم محرم؛ لأن القرابة المتأيدة بالمحرمية بمنزلة الولادة في حكم الإحياء بدليل أنها توجب العتق عند الدخول في ملكه.

ولو قيل له: لنحبسن أباك في السجن، أو لتبيعن هذا الرجل عبدك بألف درهم، ففعل، ففي القياس البيع جائز. لما بينا أن هذا ليس بإكراه، فإنه لم يهدد بشيء في نفسه، وحبس ابنه في السجن لا يلحق ضررا به والتهديد به لا يمنع صحة بيعه، وإقراره، وهبته، وكذلك في حق كل ذي رحم محرم، وفي الاستحسان ذلك إكراه كله ولا ينفذ شيء من هذه التصرفات؛ لأن حبس ابنه يلحق به من الحزن ما يلحق به حبس نفسه، أو أكثر فالولد إذا كان بارا يسعى في تخليص أبيه من السجن، وإن كان يعلم أنه يحبس، وربما يدخل السجن مختارا، ويحبس مكان أبيه ليخرج أبوه، فكما أن التهديد بالحبس في حقه يعدم تمام الرضا، فكذلك التهديد بحبس أبيه، والله أعلم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved