• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا طلاق کے لیے تحریر ہونا ضروری ہے؟ تحریری طلا ق دینے کے لیے کیا تحریر ہونی چاہیے؟

استفتاء

ہمارے ہاں ایک لڑکے کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی جس کی وجہ سے رشتہ ختم کردیا گیا ہے کچھ ہی دنوں میں طلاق دی جائے گی انھوں نے مجھے کہا کہ  تم طلاق نامہ لکھو  گے اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1۔تحریری طور پر طلاق نامہ لکھنا ضروری ہے ؟تاکہ آئندہ کے لیے ایک سند  کے طور پر رہے یا لکھنا ضروری نہیں صرف زبانی طلاق دے کر معاملہ ختم کردیا جائے؟

2۔طلاق نامہ اگر لکھا جائے جیساکہ وہ کہتے ہیں کہ لکھیں گے تو کن الفاظ سے لکھا جائے؟وہ الفاظ لکھ کر بھیجیں ۔

3۔کتنی طلاقیں دی جائیں؟

4۔پہلے وہ زبانی طلاق دے گا پھر اس کے بعد تحریر کیاجائے گا ؟یا صرف تحریر پر لڑکے کے دستخط ہونگے؟لڑکے کا نام عبداللہ ہے۔

5۔نیز  ٹوٹل کتنے لوگوں کے دستخط ہونگے ؟برائے مہربانی مکمل تحریر  لکھ کر بھیجیں تاکہ میں اسی طرح لکھ لوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔طلاق کے واقع ہونے      کے لیے اگرچہ  زبانی طلاق دینا کا فی ہے ،طلاقنامہ لکھنا ضروری نہیں ،لیکن زبانی طلاق  سے سرکاری کاغذات میں نکاح ختم نہ ہوگااس لیے طلاقنامہ لکھ لیا جائے تاکہ سند رہے اور قانونی طور پر کام آئے۔

2۔طلاقنامے میں طلاق کے الفاظ یہ لکھے جائیں:

’’میں فلاں  بن فلاں بقائمی ہوش و حواس  اپنی بیوی مسماۃ فلانہ بنت فلاں کو بلا جبرواکراہ طلاق دیتا ہوں‘‘

نوٹ: اس تحریر سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی  اس کے بعد شوہر مزید کوئی طلاق نہ دے،  عدت گزرنے کے بعد خود ہی نکاح ختم ہوجائے گا۔

3۔صرف ایک رجعى طلاق دی جائے۔

4۔صرف تحریر لکھ کر اس پر دستخط کرنا کافی ہے ۔زبانی طلاق دینے کی ضرورت نہیں۔

5۔ طلاقنامے سے  شرعاً طلاق واقع ہونے کے لیے اس پر  صرف شوہر کے دستخط کافی ہیں البتہ قانونی طور پر کم از کم دو گواہوں کے دستخط ضروری ہیں ۔

نوٹ: قانونی طور پر طلاقنامے کی عبارت کیا ہو اور اس کے مؤثر ہونے کی کیا شرائط ہیں اس کی معلومات کسی قانون جاننے والے سے لے لیں۔

ردالمحتار(4/443)میں ہے:

ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه.

در مختار(4/420)میں ہے:

طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها ‌حتى ‌تمضي ‌عدتها (أحسن) بالنسبة إلى البعض الآخر.

بدائع الصنائع (3/283)میں ہے:

 أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها ‌بل ‌تركها حتى انقضت عدتها بانت.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved