• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے بارے میں زوجین کے اختلاف کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنے بیٹے کی شادی 24 دسمبر 2021 کو کی تھی، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا،  پھر میری بہو نے میری بیٹیوں اور بڑی بہو سے کہنا شروع کر دیا کہ میں اپنے آپ کو اس گھر میں قیدی کی طرح محسوس کرتی ہوں، شادی سے پہلے ہم سارے کزن مل کر ٹک ٹاک ویڈیو بناتے تھے، پارٹیاں کرتے تھے، میرے بچوں کے سمجھانے پر وہ کچھ سمجھ گئی، اسی دوران ایک رات بہو نے اپنی ساس کو بتایا کہ آپ کا بیٹا مجھے کہہ رہا ہے کہ اگر تم نے ایسا ہی رویہ رکھا تو میں دے دوں گا، ساس نے سمجھایا کہ آپ لوگ آپس میں پیار سے رہیں کچھ نہیں ہوتا، اسی دوران اللہ پاک نے کرم کیا اسے حمل ٹھہر گیا، شروع دن سے ہی ہم اس سے گھر کا کام کاج کم کرواتے تھے کیونکہ وہ اپنے والدین کی کافی لاڈلی تھی، اب حمل کے بعد اسے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق رکھا جانے لگا، لیکن اس کی بڑی بہن نے اسے ہدایات دینا شروع کر دیں، اس طرح معاملات بگڑنے لگے الغرض 7 مئی 2022 کو اس کا بھائی ایک ماہ کے لئے اپنے گھر لے گیا، وہاں جا کر لڑکی نے اپنے والدین کو بتایا کہ سسرال میں مجھےمارتے پیٹتے تھے، مجھے تنگ کرتے تھے، اور اس نے یہ تک کہہ دیا کہ مجھے میرے شوہر نے طلاق دے دی ہے، اس سلسلے میں ایک جرگہ ہوا جہاں پر ممبران نے میرے بیٹے سے کلمہ پڑھ کر قرآن کی قسم اٹھوا کر پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے طلاق دے دی ہے؟ جس پر میرے بیٹے نے کہا کہ میں نے طلاق نہیں دی، جبکہ لڑکی نے سب کے سامنے کلمہ پڑھ کر قسم کھا کر کہا کہ مجھے میرے شوہر عبداللہ نے تین مرتبہ کہا کہ ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں فتوی مرحمت فرمائیں کہ طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ جناب کے عین نوازش ہوگی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے بیٹے کے حق میں تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن بیوی کے حق میں اس کے اپنے بیان کے مطابق   تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے  بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے،  لہذا اس کے لیے شوہر کے پاس  بیوی کی حیثیت سے  رہنا جائز نہیں ۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر وہ خود شوہر کو  طلاق دیتے ہوئے سن لے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، مذکورہ صورت میں بھی چونکہ بیوی کا دعوی یہ ہے کہ اس نے شوہر سے تین مرتبہ  ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ کے الفاظ سنے ہیں لہذا     بیوی کے حق میں  تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے  بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔

فتاوی شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

درمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر، لقوله  عز وجل  {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

امداد الاحکام (561/2) میں ہے:

قال فى عدة ارباب الفتوى : وما لا يصدق فيه المرء عند القاضى لايفتى فيه كما لا ىقضى فيه و قال فى شرح نظم النقاية و كما لايدينه القاضى كذالك اذا سمعته منه المرأة أو شهد به عندها عدول لا يسعه ان تدينه لانها كالقاضى لا تعرف منه الا الظاهر انتهى.

نوٹ: مذکورہ صورت میں میاں بیوی میں سے کوئی ایک یقینا جھوٹا ہے لیکن اسکے علم کا مفتی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں، اس لیے مفتی کا فتوی ظاہری ضابطے کے مطابق ہوتا ہے لہذا جو واقعتا جھوٹا ہےاسے ہمارا فتوی گناہ سے اور اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved