• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے طلاقنامے میں دو دفعہ طلاق لکھ کر بیوی کو دے دی، کیا رجوع کی گنجائش ہے؟

استفتاء

یہ میرے شوہر نے مجھے طلاق کی تحریر لکھ کر بھیجی ہے۔ میرے شوہر نے جب یہ تحریر لکھی تو نمبر 1 میں طلاق کا جملہ لکھا تھا اور نمبر 2 میں طلاق کے الفاظ نہیں لکھے تھے اور نمبر 3 میں کچھ نہیں لکھا بلکہ بالکل چھوڑ دیا تھا۔ اصل تحریر کی تصویر ارسال کردی ہے۔ اس کے علاوہ میرے شوہر نے مجھے کبھی طلاق کے الفاظ نہیں کہے۔ کیا اس کے بعد اب رجوع کی گنجائش ہے؟

طلاق کی تحریر:

’’میں ****کو اپنی اور*** کی رضامندی سے طلاق دیتا ہوں۔ حق مہر کی رقم 10,000 اس کے اکاؤنٹ  میں بھیج دوں گا اور اس کے بعدجو وعدہ میں نے کیا ،3 تولے  زیور اور جو  پیسے  نفیسہ سے میں نے 9 سالوں میں لیے تھے  اگر میری زندگی رہی تو میں ***  اس کو سارے  واپس کردوں گا  اور اگر میں مرگیا تو میری جائیداد جو گاؤں چھمیان میں میرے نام ہے، وہ ساری ****کے نام ہوگی اور 2 سال تک20,000  روپے ***کے اکاؤنٹ میں بھیجتا رہوں گا، اس کے بعد **** کا** کے خاندان سے او****** کے خاندان سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔

1.میں****کو طلاق دیتا ہوں اپنی مرضی سے۔

  1. میں***** کو اپنی مرضی سے

دستخط (شوہر)2022/06/15                                                         دستخط (بیوی)

وضاحت مطلوب ہے: شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔******

دار الافتاء سے ٹیلی فون کے ذریعے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا:

’’میں نے بیوی کو یہ تحریر دی تھی لیکن صرف ایک طلاق تحریر کی تھی اور میں ایک طلاق ہی دینا چاہتا تھا۔ دوسری یا تیسری طلاق نہیں لکھی۔ اس کے علاوہ میں نے کبھی زبان سے یا تحریر سے طلاق نہیں دی‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو رجعی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر رجوع کرلے تو رجوع ہوجائے گا اور نکاح قائم رہے گا اور  اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت گزرنے پر نکاح ختم ہوجائے گا جس کے بعد اکٹھے رہنے کے لیے میاں بیوی کو باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ: رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر ایک طلاق دینا چاہتا تھا لیکن اس نے جو تحریر لکھی ہے اس میں طلاق کا جملہ دو دفعہ مذکور ہے۔ ایک دفعہ تحریر کے شروع میں لکھا ہے کہ ’’میں رضوان احمد ولد میاں محمد رفیق  نفیسہ طارق کو اپنی اور نفیسہ کی رضامندی سے طلاق دیتا ہوں‘‘ یہ جملہ چونکہ طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔ پھر تحریر کے آخر میں نمبر 1 میں یہ جملہ لکھا ہے کہ ’’ میں رضوان  احمد ولد میاں محمد رفیق نفیسہ طارق کو طلاق دیتا ہوں اپنی مرضی سے‘‘ یہ جملہ بھی طلاق کے لیے صریح ہے اور انشاء کا جملہ ہے جو پہلی طلاق کی خبر نہیں بن سکتا اس لیے اس سے الصریح یلحق الصریح کے تحت دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی۔

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

عالمگیریہ (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد …… فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved