• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’میری طرف سے ختم ہے ‘‘کہنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نکاح مورخہ 5 جنوری 2020 میں ہوا تھا شادی کے بعد سے ہی ہمارے معاملات اچھے نہ تھے کیونکہ میری بیوی میری بات نہیں مانتی تھی اور بار بار اپنے گھر جانے کا تقاضہ کرتی تھی بہرحال آخری بار جب اس کے والد بغیر بتائے اسے لینے آئے تو میرے منع کرنے کے باوجود وہ چلی گئی میرے والد صاحب سے اجازت لے کر، جانے سے پہلے جو میرے الفاظ تھے وہ یہ ہیں کہ ’’تم نے نہیں جانا اگر گئی تو پھر واپس نہ آنا‘‘ جب کہ ان الفاظ کے باوجود وہ چلی گئی۔ اگلے دن میں نے کال کرکے والدہ سے کہا کہ ’’میرے منع کرنے کے باوجود تم چلی گئی ہو تو اب واپس نہ آنا، میری طرف سے ختم ہے‘‘ یہ بات مورخہ 18 مارچ 2020 کی ہے اور تب سے ہی وہ واپس نہیں آئی اور نہ ہمارا کوئی رابطہ ہوا۔ کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: جب آپ نے یہ الفاظ بیوی کو بولے تھے تو آپ کی نیت کیا تھی؟

جواب وضاحت: میری نیت طلاق کی نہیں تھی، میں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ شاید معاملہ ٹھیک ہوجائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے یہ الفاظ کہ ’’میری طرف سے ختم ہے‘‘ چونکہ طلاق کی نیت سے نہیں بولے تھے اس لئے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر کو بیوی کے سامنے قسم دینی ہوگی۔ اگر قسم نہ دے تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی۔ بائنہ طلاق میں سابقہ نکاح ختم ہوجاتا ہے تاہم دوبارہ سے نکاح کرکے صلح ہوسکتی ہے۔

توجیہ: سوال میں مذکور الفاظ ’’میری طرف سے ختم ہے‘‘ کنایات طلاق کی دوسری قسم کے الفاظ ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ

اگر ان الفاظ کے بولنے سے پہلے طلاق کا ذکر چل رہا تھا یا طلاق کا ذکر تو نہیں تھا لیکن شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ بول دیئے تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔اور اگر طلاق کی نیت نہ ہوتو کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاویٰ قاضی خان علی ہامش الہندیہ (468/1) میں ہے:

ولو قال لم يبق بيني وبينك عمل يقع الطلاق إذا نوى.

فتاویٰ شامیہ (4/521) میں ہے:

والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

الدر المختار مع رد المحتار (521/4) میں ہے:

(تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.

وفي الشامية تحته: (قوله بيمينه) فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقا لله تعالى. ط عن البحر

نیز (526/4) میں ہے:

المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. فتح

امداد المفتین (ص527)  اور فتاویٰ رحیمیہ (302/8) میں ہے:

’’زید کا قول ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں یہ کنایہ طلاق ہے۔ صرح العالمگیریہ والخلاصۃ حیث قال لم یبق بینی وبینک عمل أو شيئ وأمثال ذلك اور یہ کنایہ قسم ثانی میں داخل ہے جس کا حکم یہ ہے کہ نیت پر موقوف ہے اگر زید نے ان لفظوں سے طلاق کی نیت کی ہے جیسے کہ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی اور اگر نیت نہیں کی تو طلاق واقع نہیں ہوئی زید سے حلف لے کر دریافت کیا جاسکتا ہے‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved