• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک کنائی طلاق کے بعد تحریری طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سات سال پہلے میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ صبح صبح بیوی سے جھگڑا ہو گیا  اور میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ ’’جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘  ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت تھی، لوگوں نے کہا کہ ایسا نہ کر مگر میں یہی کہتا رہا کہ  ’’یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘ میری بیوی گھر سے چلی گئی ، اس واقعہ کے چار دن بعد میں نے ایک طلاقنامہ لکھا جو ساتھ لف ہے، اور طلاقنامہ طلاق کی نیت سے ہی لکھا تھا،  میرے تین بچے ہیں ، صلح کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟

طلاقنامے کی عبارت:

’’میں مسمی محمد عنصر بیگ ولد محمد سفیر خان ساکن خواجہ باغ، اپنی اہلیہ مسماۃ نداء کو بوجہ نافرمانی، بدتمیزی اپنی زندگی سے الگ کرتا ہوں اور طلاق دیتا ہوں، طلاق ، طلاق، طلاق‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے  لہذا  اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی سے یہ کہا کہ  ’’جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو چونکہ شوہر کی طلاق کی نیت تھی لہذا  ان الفاظ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی،  پھر جب شوہر نے لوگوں سے یہ کہا کہ     ’’یہ میری طرف سے فارغ ہے‘‘ تو البائن لایلحق البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، پھر چار دن بعد جب شوہر نے طلاق کی نیت سے طلاقنامہ لکھا تو طلاقنامے کے ان الفاظ سے ’’ طلاق دیتا ہوں، طلاق ، طلاق، طلاق ‘‘ الصریح یلحق البائن کے تحت مزید دو طلاقیں واقع ہو گئیں اور تین طلاقوں کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی۔

درمختار (516/4) میں ہے:

(ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب

فتاوی شامی (442/4) میں ہے:

قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو

درمختار (4/528) میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة.

درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved