• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والدہ کے دباؤ میں آ کر تحریری طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی نے مجھ سے خلع کا مطالبہ کیا تھا،  وہ اور اس کے گھر والے خلع نامہ بنوا کر ہمارے گھر آئے اور مجھے کہا کہ دستخط کرو، ان کے  خلع نامے میں میرے بارے میں کچھ غلط باتیں لکھی ہوئی تھیں اس لیے میں نے اس پر دستخط نہیں کیے، میں نے اپنا خلع نامہ خود بنوایا اور اس پر دستخط کیے، مجھے معلوم تھا کہ اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں، میری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی لیکن والدہ کے اصرار کی وجہ سے دباؤ میں آ کر مجبوری  میں  دستخط کر دیے، مجبوری صرف اتنی تھی کہ اگر میں دستخط نہ کرتا تو میرے سسرال والوں سے ہمارے لڑائی جھگڑے بڑھ جاتے، کسی نے کوئی دھمکی نہیں دی تھی، میں نے زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہیں کیے تھے،  جس خلع نامے پر میں نے دستخط کیے تھے ا س کا نمونہ ساتھ لف ہے۔

خلع نامے کی عبارت:

خلع نامہ

یہ طلاق  آج مؤرخہ …………. کو کراچی میں تحریر ودستخط کیا گیا۔

مابین

مسمیٰ ……. شناختی کارڈ نمبر ….. مسلم، بالغ، سکنہ ……  اب اس خلع نامہ میں فریق دوئم کہلائیں گے۔

اور

مسماۃ …… شناختی کارڈ نمبر ….. مسلم، بالغ، سکنہ …….  اب اس خلع نامہ میں فریق دوئم کہلائیں گے۔

…………… لہٰذا فریق دوئم نے اپنا شرعی اور قانونی حق استعمال کرتے ہوئے  فریق اول سے علیحدگی بذریعہ خلع کا مطالبہ کیا۔

اور یہ کہ فریق اول نے فریق دوم کے مطالبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے  فریق دوئم کو رشتہ ازدواج سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا   اور مندرجہ ذیل طلاق  بذریعہ خلع گواہان کے روبرو ادا کی:

۱.میں ………… اپنی بیوی………. کو اس کے خلع کے مطالبے پر طلاق دیتا ہوں۔

۲.میں ………… اپنی بیوی………. کو اس کے خلع کے مطالبے پر طلاق دیتا ہوں۔

۳.میں ………… اپنی بیوی………. کو اس کے خلع کے مطالبے پر طلاق دیتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ آپ نے والدہ کے دباؤمیں آ کردستخط کیے ہیں لیکن چونکہ یہ دباؤ ایسا نہیں جوشرعا قابل اعتبار ہو لہذا مذکورہ صورت میں خلع نامےمیں مذکور ان الفاظ سے کہ ’’ میں ۔۔۔اپنی بیوی۔۔۔ کو اس کے خلع کے مطالبے پر طلاق دیتا ہوں، میں ۔۔۔اپنی بیوی۔۔۔ کو اس کے خلع کے مطالبے پر طلاق دیتا ہوں، میں ۔۔۔اپنی بیوی۔۔۔ کو اس کے خلع کے مطالبے پر طلاق دیتا ہوں‘‘ آپ کی بیوی پر تینوں  طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے آپ کی بیوی آپ پر حرام ہو گئی ہے،لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (9/217) میں ہے:

وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ.

(قوله: وهو نوعان) أي الإكراه، وكل منهما معدم للرضا لكن الملجئ، وهو الكامل يوجب الإلجاء، ويفسد الاختيار فنفي الرضا أعم من إفساد الاختيار والرضا بإزاء الكراهة، والاختيار بإزاء الجبر ففي الإكراه بحبس أو ضرب لا شك في وجود الكراهة وعدم الرضا وإن تحقق الاختيار الصحيح إذ فساده إنما هو بالتخويف بإتلاف النفس، أو العضو.

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved