• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے وائس میسج کیا کہ ’’میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں‘‘، ’’میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو طلاق اور عدت کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

ميرے شوہر نے***كو مجهے ايك طلاق دی ہے ا س وقت میرے پیریڈز کا دوسرا دن تھا۔ اب میرے  3 پیریڈز ہوچکے ہیں اور چوتھا پیریڈ آنے والا  ہے تو 3 پیریڈز کے حساب سے طلاق کی عدت پوری ہوجاتی ہے  یا تاریخ کے حساب سے 90 دن پورے کیے جاتے ہیں  اور میرے شوہر نے مجھ سے اب تک رجوع بھی نہیں کیا  ہے اور دوسری بات یہ کہ  میرے شوہر نے ایک بار میسج  پر کہا تھا کہ ’’میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو کیا  ا س طرح  میری دو طلاقیں ہوگئیں ہیں یا نہیں؟ اور اکٹھے رہنے کا کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: (1)شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں، (2) پہلی طلاق تحریری دی تھی یا زبانی؟ (2)دوسری دفعہ طلاق کا میسج تحریری تھا یا زبانی؟

جوابِ وضاحت: (1)شوہر کا رابطہ نمبر یہ ہے: ***،  (2-3) دونوں دفعہ وائس میسج کیا تھا۔ 16 جون والے میسج میں کہا تھا کہ ’’لے سن اللہ کی قسم میں تمہیں آج پہلی طلاق دے رہا ہوں‘‘ اور دوسرا میسج 29 جون کو کیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’میری طرف سے فارغ ہو، میں نے تمہیں ایک دے دی ہے‘‘ دونوں میسج دار الافتاء کے نمبر پر بھیج دیئے ہیں آپ سن سکتے ہیں۔

شوہر سے رابطہ کیا گیا اور طلاق کے میسج کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اقرار کیا اور یہ بیان دیا:

’’میں نے غصے میں ڈرانے کے لیے پہلا میسج کیا تھا، طلاق کی نیت نہیں تھی تاکہ وہ باز آجائے۔ اس کے بعد ہم میاں بیوی کی ملاقات نہیں ہوسکی تھی اور نہ ہمارا رابطہ تھا کیونکہ میں دوسری جگہ جاب کرتا ہوں تو جب گھر گیا تھا تو وہ اپنی ماں کے گھر چلی گئی تھی اور میں نے رجوع بھی نہیں کیا۔ دوسرے میسج کے وقت وہ بار بار طلاق کا پوچھ رہے تھے تو میں نے غصے میں آکر یہ میسج کردیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کی عدت چوتھے پیریڈ (حیض) کے ختم ہونے پر ختم ہوگی، نیز مذکورہ صورت میں دو طلاقیں نہیں ہوئیں بلکہ ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہےلہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی کو 16جون  کو یہ وائس میسج کیا کہ ’’لے سن اللہ کی قسم میں تمہیں آج پہلی طلاق دے رہا ہوں‘‘ تو یہ الفاظ چونکہ طلاق کے لیے صریح ہیں اس لیے ان سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی اور بیوی کی عدت شروع ہوگئی اور چونکہ عدت کے دوران شوہر نے رجوع نہیں کیا تھا، اس لیے  اس کے بعد جب شوہر نے دوسری دفعہ غصے میں یہ میسج کیا کہ ’’میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو ان الفاظ سے سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن گئی، کیونکہ یہ الفاظ کنایاتِ طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں لہٰذا غصہ کی حالت میں کہنے کی وجہ سے شوہر کی نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ان الفاظ سے سابقہ رجعی طلاق بائنہ ہوگئی کیونکہ رجعی طلاق کے بعد رجوع سے پہلے دوران عدت کنائی الفاظ بولنے سے عدد میں اضافہ  نہیں ہوتا بلکہ وصف میں اضافہ ہوتا  ہے۔

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

در مختار مع رد المحتار (4/521) میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)

قوله: (توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب ………….. لأنها [أي ما يتعين للجواب] وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق

ہدایہ (2/409، باب الرجعۃ) میں ہے:

‌‌فصل فيما تحل به المطلقة: "وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله

وفي فتح القدير: قوله: (لأن زواله) مرجع الضمير الحل وضمير فينعدم للزوال.

در مختار (5/183) میں ہے:

(وهي [العدة] في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا …… (بعد الدخول حقيقة أو حكما) …… (ثلاث حيض كوامل)

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد

احسن الفتاویٰ (5/188) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: ***نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔ 

لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..

اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

 

امداد المفتین (511) میں ہے:

فى الخلاصة: وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2) اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ کنایہ اگر مطلقہ رجعی کے حق میں بولے جائیں تو طلاق جدید کی نیت کرنے سے طلاق جدید واقع ہوجاتی ہے اور کچھ نیت نہ کرنے سے پہلی طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved